آرمی چیف کے حوالے سے قانون سازی کا بال پارلیمینٹ کے کورٹ میں

آرمی چیف کے حوالے سے قانون سازی کا بال پارلیمینٹ کے کورٹ میں
اسلام آباد کے ریڈزون میں قائم سپریم کورٹ کی بلڈنگ گزشتہ تین دنوں سے توجہ کی مرکز بنی رہی نہ صرف سپریم کورٹ کی راہداریوں میں بحث مباحثے اور چی مگوئیاں ہو رہی تھیں بلکہ پارلیمنٹ ہاوٗس کے اندر ممبران اور سوشل میڈیا پر بھی یہی بات چل رہی تھی۔ جنرل باجوہ جائینگے یا پھر مارشل لاء لگا دینگے۔

25098/

آج تمام چے مگوئیاں بھی دم توڑ گئیں اور پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے گیند پارلیمان کے کورٹ میں پھینک دی کیونکہ عدالت نے صبح صبح سابقہ وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کو تنبیہ کی کہ سمری سے سپریم کورٹ کا متن نکال لو، ہمارے کندھے پر بندوق نہ رکھو۔ سپریم کورٹ کا روم نمبر ایک صحافیوں، اینکروں اور وکلا سے کچھا کھچ بھرا تھا اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہے تھے کیونکہ دو گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا تھا مگر ابھی تک ججز سامنے نہیں آئے تھے۔

ہجوم میں راستہ بناتے ہوئے آگے گیا تو سینئر صحافی نسیم زہرہ زمین پر بیٹھی کچھ تھکی تھکی سی لگ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا، نسیم آپا کیا پیشن گوئی ہے آپ کی؟ تو انہوں نے جواب دیا فیصلہ جو بھی آئے مگر یہ عمل بہت اچھا ہے، کیونکہ آرمی چیف کے لئے پہلی بار قانون سازی ہو گی اور عدالت میں ان کے مستقبل کا آئین کے تحت فیصلہ ہوگا۔

https://www.youtube.com/watch?v=08Ba-7-G30w

انھوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا پاکستان بننے کے بعد ہم نے بہت سنگین غلطیاں کی ہیں، جن سے جمہوریت اور ملک کے استحکام کو نقصان پہنچا ہے مگر ہمیں آگے یہ غلطیاں نہیں کرنی چاہیے اور سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے ملک اور جمہوریت مضبوط ہو گی۔
اللہ اللہ کر کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ دیگر ججز کے ساتھ اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان ہو گئے اور کورٹ روم میں جہاں کچھ لمحے پہلے بہت شور شرابہ تھا، ایک دم خاموشی چھا گئی۔

ایک صحافی نے پاس کھڑی عاصمہ شیرازی صاحبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا! باجی لوگ ویسے جھوٹ بولتے ہیں کہ لوگ میڈیا سے ڈرتے ہیں، بھائی لوگ تو ان سے ڈرتے ہیں اور پاس کھڑے لوگوں نے ججز کے ڈر سے قہقہے نہیں لگائے۔

https://www.youtube.com/watch?v=n03Cb6mAn5I&feature=emb_logo

چیف جسٹس صاحب نے ہنستے ہوئے کہا وہ راہی صاحب نظر نہیں آ رہے،  آج موجود ہیں کہ نہیں جس پر کورٹ روم میں ایک زوردار قہقہ لگا اور ایک وکیل نے آگے بڑھ کر کہا مائی لارڈ وہ کھانا کھانے گئے ہے۔

راہی صاحب کچھ ہی لمحوں میں جج صاحب کے سامنے پیش ہوئے مگر بے کار کیونکہ تب چیف جسٹس صاحب فیصلہ سنا رہے تھے۔ فیصلہ سنانے کے بعد سب لوگ روم سے باہر بھاگ رہے تھے تاکہ اپنے چینلز خبر دیں سکے۔

عدالت کے باہر میڈیا اور وکلا کا جم غفیر تھا اور یہی بات زیر بحث تھی کہ اب پارلیمان میں کیا ہوگا؟ کیا اس فیصلے سے تحریک انصاف کو نقصان ہو گا یا پھر پاکستان پیپلز  پارٹی اور مسلم لیگ نواز اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کریگے؟ کسی نے تو دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ اگر چیف جسٹس صاحب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو ختم کرتے ہیں تو یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنما ان کو گالیاں دیں گے۔

عدالت کے سامنے نیا دور سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ہمیں اس فیصلے سے زیادہ کی امید بھی نہیں تھی اور یہی فیصلہ آنا تھا مگر یہ بہت اہم پیش رفت ہے کہ سپریم کورٹ  نے قانونی لاکونہ کو دور کیا۔

25041/

سپریم کورٹ آف پاکستان کے قانونی ماہر ایڈوکیٹ عتیق الرحمان صدیقی نے کہا کہ ماضی میں آرمی چیفس کی جتنی بھی ایکسٹینشنز ہوئی ہیں، وہ نا صرف آئین پاکستان کے خلاف ہوئی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آرمی قوانین کے بھی خلاف تھیں۔ کیونکہ آرمی ایکٹ 3591، آرمی رولز 4591، آرمی ریگولیشنز 8991 اور آرٹیکل 382 آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر خاموش ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اس میں موجودہ حکومت کی کوئی ناکامی نہیں کیونکہ ایک قانونی مسئلہ تھا جن کو سپریم کورٹ نے آٹھایا اور اب پارلیمان اس پر قانون سازی کریگی۔

سینئر صحافی آصف بشیر چودھری جو عدالتی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں نے نیا دور کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ آج اگر آپ اس فیصلے کو دیکھیں تو یہ قانونی شقوں کے سہارے نہیں تھا بلکہ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظریہ ضرروت کے تخت یہ ٖفیصلہ سنا دیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=eJdNWqJ8nTo&t=260s

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ملکی تاریخ میں ایک اچھا فیصلہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو گی۔

سینئر صحافی منیزے جہانگیر نے عدالتی فیصلے کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کہا کیونکہ بہت سارے لوگوں کو امیدیں بھی تھی اور کچھ لوگوں کو خدشہ بھی تھا کہ نجانے کیا ہو گا مگر اب سپریم کورٹ نے گیند پارلیمنٹ میں پھینک دیا اور جو جماعتیں سول سپریمیسی کی بات کرتی تھیں آج ان کا بڑا امتحان ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔