گلگت بلتستان حکومت نے وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی سزائیں معطل کر کے 9 برس بعد انھیں رہا کر دیا۔ جمعہ کی شب تین انقلابی رہنماؤں کی رہائی کے بعد مجموعی طور پر گرفتار کئے گئے چودہ رہنماؤں کی رہائی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ مرحلہ وار رہائی کے سلسلہ میں منگل کے روز مزید پانچ سیاسی اسیران کو رہا کیا گیا تھا
بابا جان اور ان کے دو ساتھیوں افتخار کربلائی اور شکر اللہ بیگ عرف مٹھو کو گزشتہ روز رہا کیا گیا۔
بابا جان کے بھائی امین جان نے بتایا ہے کہ بابا جان سمیت دیگر تمام سیاسی اسیران کی رہائی اکتوبر میں سات روزہ دھرنے کے بعد ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ ان سزاؤں کے خلاف گزشتہ لمبے عرصہ سے اندرون و بیرون ملک احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ گزشتہ ماہ اکتوبر میں علی آباد ہنزہ کے عوام نے شدید سرد موسم میں سات روز کا طویل ترین احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ احتجاجی دھرنے میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرتے ہوئے انتخابات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد حکام نے مذاکرات کے بعد سیاسی اسیران کو مرحلہ وار رہا کرنیکی یقین دہانی کروائی تھی۔ ان افراد کو 2011 میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کی جانب سے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اگست 2011ء میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کو معاوضہ جات اور رہائش کی جگہ فراہم کرنے کے مطالبے پر بابا جان اور افتخار کربلائی کی قیادت میں ہونے والے احتجاج میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ کی زد میں آکر دو مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔ پولیس نے واقع کا مقدمہ مظاہرین کے خلاف درج کرتے ہوئے چودہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ چار سال قبل چودہ افراد کو دہشت گردی، قتل اور دیگردفعات کے تحت چالیس سال سے ستر سال کی سزائیں سنائی گئی تھیں
عدالت نے گرفتار افراد کو 40 سال سے 90 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔
امین جان کا کہنا تھا کہ بابا جان اور ان کے ساتھیوں پر مقدمات ختم نہیں ہوئے، ان کی اپیل اپیلیٹ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔