اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر کھڑی نااہل حکومت، اور اپوزیشن کا بڑھتا سیاسی دباؤ

اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر کھڑی نااہل حکومت، اور اپوزیشن کا بڑھتا سیاسی دباؤ
حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک غصے سے بھری ہوئی حزبِ اختلاف اور ایک ڈھیٹ وزیر اعظم ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایسی لڑائی میں الجھ چکے ہیں جس کا شاید فاتح کوئی بھی نہ ہو۔ اس لڑائی میں کون کس طرف ہے یہ ابھی تک واضح نہیں، گو کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حالیہ دو جلسے یعنی گوجرانوالہ اور کراچی (بعد میں کوئٹہ بھی) خاصے تگڑے رہے ہیں۔ اس بے ہنگم سے اتحاد کو فی الحال یہ واضح نہیں کہ اس کا اصل نشانہ ہے کون۔

نواز شریف کی گوجرانوالہ میں بے لاگ تقریر جس میں انہوں نے نام لے کر لوگوں پر الزامات لگائے، اس نے جنگ کا نقشہ ایک بار پھر تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی ان کا ہدف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ اس کا سربراہ ہے۔ سابق وزیر اعظم کے اس تازہ بیانیے نے معاملات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ فوجی قیادت پر ملک میں سویلین حکمرانوں کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ لیکن نواز شریف کے الزامات کہیں زیادہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ یہ ایک فوجی سربراہِ مملکت نہیں بلکہ ایک موجودہ آرمی چیف ہے جس پر یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں اور یہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کوئی الفاظ نہیں چبائے۔

اس سے لگتا یہی ہے کہ PDM کی پوری جنگی حکمت عملی ہی تبدیل ہو گئی ہے جس کا ابتدا میں ہدف پاکستان تحریک انصاف حکومت کو ہونا تھا۔ نواز شریف کے فوجی قیادت پر تابڑ توڑ حملے صرف ان کے اتحادیوں کے لئے ہی نہیں، شاید ان کی اپنی جماعت کے کچھ رہنماؤں کے نزدیک بھی ہضم کرنا مشکل ہو۔

اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ان کے علاوہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کا لہجہ ان کے مقابلے میں اتنا جارحانہ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ وزیر اعظم اور ان کی ناکام پالیسیوں کی طرف ہی رکھا۔ لیکن PDM پر جو بیانیہ اس وقت حاوی ہے وہ جلا وطنی کاٹنے والے سابق وزیر اعظم کا ہی ہے۔

یہ سچ ہے کہ اپوزیشن کی اس تحریک کو تاحال عوامی سطح پر بہت بڑی پذیرائی نہیں ملی لیکن اس کے دو جلسوں نے ہی حکومت کو پچھلے پاؤں پر دھکیل دیا ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن کے جارحانہ حملوں کا جواب اپنے روایتی جذباتی انداز میں دیا ہے، اور دھمکی دی ہے کہ اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیں گے۔ ان کے اس خطاب سے ان کی جھلاہٹ صاف جھلک رہی تھی۔ ان کا انداز ایک ایسے حکمران کا تھا جس کو بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔

وہ تساہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید ان کو بھی پتہ ہے کہ وہ ایک مشکل وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ مشکل وقت آئے گا تو یہ ڈھال کام نہیں کرے گی۔ کیونکہ ان کی مقبولیت میں کمی کی وجہ اپوزیشن کی تحریک نہیں بلکہ ان کی اپنی حکومت کی ناکامیاں ہیں۔

پاکستان میں منتخب سویلین حکمرانوں کی مدت یوں بھی کوئی بہت زیادہ لمبی نہیں ہوتی لیکن پاکستان کے حساب سے بھی عمران خان حکومت کی مقبولیت میں کمی حیرت انگیز حد تک تیزی سے واقع ہوئی ہے۔ یہ تقریباً ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے۔ اور اس کی ناکامیوں نے اپوزیشن کو تحریک شروع کرنے کے لئے ایک بہترین موقع فراہم کر دیا ہے۔ وزیر اعظم اس وقت ایک بہت ہی مشکل صورتحال سے دو چار ہیں اور ان کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ہیں اور وہ بھی مکمل طور پر ان کے شاید ساتھ نہ ہوں۔ ان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ سب کو اپنا مخالف بنا لیتے ہیں۔ اس وقت سیاسی میدان حقیقتاً پاکستان تحریک انصاف بمقابلہ باقی تمام سیاسی قوتیں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

عمران خان کا واٹرلو شاید پنجاب ہی ثابت ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اس گڑھ میں پی ٹی آئی حکومت ایک بہت ہی کمزور اکثریت کے ساتھ برقرار ہے۔ تمام اشاریے اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ صوبے میں تحریک انصاف اپنی نااہلی اور ناتجربہ کاری کے باعث تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ شاید حالیہ سالوں میں پنجاب میں یہ بدترین حکومت رہی ہے۔ پنجاب میں ایک کمزور وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف حکومت اپوزیشن کی اس تحریک کو روکنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں رکھتی۔

بیوروکریسی حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں اور اس کے باعث صوبے میں کوئی فعال انتظامیہ دکھائی نہیں دیتی۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ گورننس کا فقدان ہے لیکن حکومتی ایوانوں میں صورتحال کی سنگینی کا ادراک سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔

وزیر اعظم صاحب اب اس بحران پر اپنی ٹائیگر فورس کے ذریعے قابو پانا چاہتے ہیں۔ یہ متنازع ’رضاکار فورس‘ انتظامیہ کی مدد کرنے اور قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس سے حکومت کی نااہلی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو سنجیدہ انتظامی مسائل کا حل ان شعبدہ بازیوں میں تلاش کر رہی ہے۔ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک زور پکڑ رہی ہے اور صوبائی حکومت کی اس مسئلے سے نمٹنے کی حکمت عملی سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ اس کا اثر براہ راست وفاقی حکومت پر پڑے گا۔

چونکہ وزیر اعظم کا اپنیخیالی دنیا سے باہر آنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا، حالات سے نمٹنے کی ساری ذمہ داری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر آ گئی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے بتدریج تیز ہوتے ہوئے حملوں نے اس کی صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ادارے کی ساکھ کے لئے اس سے زیادہ برا کچھ ہو نہیں سکتا۔

یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کی آپشنز بہت ہی محدود ہیں۔ یہ اس وقت ایک ثالث کے طور پر بھی کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اپوزیشن کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ کسی بھی قسم کا آپریشن جس میں سکیورٹی ایجنسیاں ملوث ہوئیں، بحران کو مزید سنگین بنا دے گا۔ اس مسئلے کو صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ہم نے ابھی سندھ میں دیکھا کہ جب آئی جی کو مبینہ طور پر اغوا کر کے مسلم لیگ نواز کے ایک لیڈر کو گرفتار کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا اور یہ فیصلہ حکومت کے گلے پڑ گیا۔

بدقسمتی سے، وزیر اعظم صاحب کسی بھی سیاسی بحران سے دانشمندی کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کی بنیادی وجہ ہی ان کی مستقل محاذ آرائی ہے۔ ان کی حالیہ تقریر جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب قوم ایک ’نیا عمران خان‘ دیکھے گی وہ اس بات کا عندیہ نہیں تھی کہ اب معاملات کو دانشمندی سے سنبھالا جائے گا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ تھی کہ وہ اپوزیشن کے خلاف مزید سخت رویہ اپنائیں گے۔ آزادی اظہار کو دبانے کے لئے وہ مزید جارحانہ فیصلے لیں گے اور بدلے میں اپوزیشن بھی مزید سخت مؤقف اختیار کرے گی۔

یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے کہ جس میں تمام اپوزیشن ایک ایسی غیر مؤثر حکومت کے خلاف برسر پیکار ہے جسے اقتدار میں رہنے کے لئے بھی فوج کے کاندھوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے معاشرے میں انتشار بڑھا ہے جو کہ سیاسی کشیدگی کی صورت میں مزید گھمبیر ہو جائے گا۔

یہ درست ہے کہ پہلی ذمہ داری حکومت ہی کی ہوتی ہے لیکن اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ حالات کو انتہا تک نہ لے کر جائے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ محاذ آرائی کی سیاست غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس میں جیت کسی کی نہیں ہوگی۔ ان حالات میں محض امید ہی کی جا سکتی ہے کہ وقت نکلنے سے پہلے پہلے تمام سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لے لیں گی۔