بلوچستان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے! سرداری نظام ایسا پائیدارہے کہ نسلوں کی نسلیں اپنی جگہ سے نہ ہلیں، اور سیاسی نظام ایسا مضمحل کہ جیسے بس ہوا میں معلق ہے۔ جس کی سانس آئے یا جائے، ایک ہی بات لگتی ہے۔ ذیادہ سے ذیادہ دو سے تین سالوں تک بے اختیار کُرسی پر بیٹھے یا بٹھائے ہوئے شخص سے دل بھر جاتا ہے۔ سازش نہ بھی ہو تو لگتا ہے کہ محض اُکتا کر چہرہ یا مرنجاں مرنج نظام بدل دیا جاتا ہے۔
کبھی سنا ہے کہ اسمبلی کا اسپیکر اپنی ہی جماعت کے منتخب کردہ قائدِایوان کے کھلے انداز میں پہلے دن سے پیچھے پڑا ہو کہ سپیکر شپ کی بے تُکی کُرسی نہیں، وزاتِ اعلیٰ کی کُرسی اس کا حق ہے،اور آخرکار تین سال کی کھلےعام تنقیداور 'محنت' کے بعد اپنا یہ 'حق' چھین بھی لیا۔
بلوچستان میں اسی طرح سیاسی تبدیلی ہمیشہ سے حکومت کے اندر ہی محلاتی سازشوں کے ذریعے ہوتی آئی ہے، جس کا لیول محلّے سے بھی نچلے درجے کا کہا جا سکتا ہے۔ بنانا ریپبلک تو درکنار ، کوئی کیلے کا چھلکا ہے، جہاں ہر تھوڑے وقت بعد سیاسی اقتدار کے 'شوقین' سرداروں اور نوابوں کو پہلے کرسی کے جھولے دے کر بعد میں پھسلا دیا جاتا ہے، اور مزے کی بات ہے کہ اپنی سرداری میں ناک پر مکھّی نہ بیٹھنے والے شوق سے پھسل کر گر کر دوبارہ کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ، موجودہ سپیکر ، پھر سے وزیرِاعلیٰ عبدالقدوس بزنجواور مستعفی وزیراعلیٰ جام کمال خان کی مخاصمت اس وقت سے جاری ہے جب 'باپ' کے آتے ہی دونوں نے لائق وہونہار'فرزند' ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ ایک کے مطابق جب مرکز میں تبدیلی کا بلوچستان سے کھیل شروع ہوا، جبکہ دوسرے نے باغی ارکان اسمبلی کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے میں سہولت کاری دی۔ یہ اور بات ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ اصل' آہنی' چھتری کہاں سے فراہم ہوئی تھی۔ جب کہ دوسرے نے جو مسلم لیگ ن کے دور میں رہ کر ' تربیت' لے چکا تھا، نے اپنی جام خاندان کی 'وراثتی' وزارت اعلیٰ اور پرفارمنس کا دعویٰ کردیا۔ فیصلہ جام خاندان کی جدی پشتی وزارت اعلیٰ کے حق میں ہوا، اور عبدالقدوس کو اسمبلی کی 'نیوٹرل' پوزیشن پر بٹھایا گیا،جہاں انھوں نے اپنا 'غیر متنازعہ کردار' خوب نبھایا۔
عبدالقدوس بزنجو اِس سے پہلے مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ سردارثناءاللہ زہری کو ہٹوا کرچند ماہ کیلیے تابعداری کی کرسی پر بیٹھ چکے تھے، اور 'ایکسٹینشن' اپنا حق سمجھتے تھے۔ یاد رہے کہ انھی نواب زہری صاحب کو ہٹایا گیا تھا ،جنہوں نے جلسے میں اپنی کرسی نہ رکھنے کی بے عزتی پر جماعت کی صوبائی صدارت منٹوں میں چھوڑدی تھی، پر اپنی قائدِایوان کی کرسی اُٹھوانے پر چوں بھی نہ کی تھی کہ آہنی ٹھوکر کی عزت یا شاید ڈر ہوتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو تو ہم الزام دیتے ہیں کہ انھوں نے بلوچستان کو ہمیشہ اپنے نیچے رکھنے کی کوشش کی،لیکن ساتھ ہی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے کردار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہی مسلم لیگ ن جو صوبے کو بنیادی حق دینے اور اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی کردار کی بات کرتی ہے، لیکن موقع ملے تو اسی کا سہارا لے کر ایک نواب، جو اس کا کبھی تھا ہی نہیں اور جس کیلیے صرف اپنی سرداری تھی، کے ذریعےاپنی پارٹی کی صرف برائے نام حکومت بناتی ہے ۔ اور اپنی وفاقی کابینہ میں مشرف حکومت میں صوبے کے وزیر اعلی جام یوسف کے صاحبزادے کو رکھتی رہی، جس کا سب کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان کی روایت کے عین مطابق ہوا کا رُخ دیکھ کر کرسی پرجا بیٹھے گا ۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اپنے دور میں کبھی صوبے پر چڑھائی کرتی رہی، اور کبھی 'آغاز حقوق بلوچستان' کیلیے نوابزادہ اسلم رئیسانی کی خدمات حاصل کرتی پائی گئی ، جن کو 'اصلی' اور 'نقلی ' کا فرق بھی معلوم نہیں تھا۔
یہ ضرور ہے کہ جام کمال خان ایک وراثتی ، لیکن نسبتاً محنتی، پڑھے لکھے اور 'پرفارمنگ' وزیر اعلی کے طور پر سمجھے گئے، اور باپ میں جمع کیے گئے سرداروں اور مفاد پرست وزراء اور اراکین کی آنکھ میں کھٹکتے رہے۔ اسی بناء پر اوپر کی آشیرباد کے باوجود ان پر غیر روایتی انداز میں اپوزیشن کے علاوہ حکومتی حملے بھی جاری رہے اور آخر اپنی ہی حکومت میں ان کے مخالفین ان کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔ تبھی تو بلوچستان میں اپوزیشن جماعت اور جمعیت العلما اسلام کے سیکرٹری جنرل عبدالغفورحیدری نے صدا لگائی ہے کہ اس بار تبدیلی 'اندر' سے ہوئی ہے نا کہ پنڈی سے۔ ویسے حیدری صاحب سے گذارش ہے کہ اگر تبدیلی اندر سے آئی ہے تو اپوزیشن کا اس میں کیا کردار ہے اور وہ کون سا قدوس بزنجو کی صورت میں 'چاند' چڑھا ریے ہیں؟ جس کی خوبی صرف سازش کرنا، سیٹ کا متمکن ہونا اور نوجوان ہونے کے باوجود سر نیچے کیے ہوئے ٹھیکیداروں کے ساتھ چلنا ہے۔
حقیقت ہے کہ بلوچستان کے مقامی اور غیر مقامی بظاہر غیر روایتی سیاستدانوں کو بھی اپنے سیاسی کردار کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کم سے کم اگر بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح حقوق چاہیئیں تو اسٹیبلشمنٹ سے پہلے انھیں سرداروں اور نوابوں کی کرسیاں ہلانی پڑیں گی۔ کیوں ثناء بلوچ صاحب!