معلومات تک رسائی کے قانون سے بلوچستان کے شہری کیوں محروم ہیں؟

عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے دوران ڈھائی سال میں انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا سکا اور نا ہی انفارمیشن افسران کا تقرر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں اب بھی صوبائی سطح کے سرکاری اداروں سے معلومات لینے کے لیے درخواست کے ساتھ 50 روپے فیس دی جاتی ہے جو غیر قانونی عمل ہے۔

معلومات تک رسائی کے قانون سے بلوچستان کے شہری کیوں محروم ہیں؟

شہریوں کو معلومات کے حصول کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002 مشرف دور میں منظور ہوا جسے 2017 میں قومی اسمبلی نے تبدیل کرتے ہوئے دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017 کے طور پر منظور کیا تھا۔ اس ترمیم شدہ قانون کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل دیا گیا۔ بلوچستان میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2005 نافذ تھا۔ خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نافد العمل ہوا۔ سندھ انفارمیشن کمیشن اور شکایات سننے کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قیام 2018 میں قانونی چارہ جوئی کے بعد عمل میں آیا۔

شہریوں کیلئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات کے حصول میں آسانی اور سسٹم کو پیپر لیس بنانے کیلئے پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی 2021 میں آر ٹی آئی کا قانون منظور کیا گیا۔ مذکورہ ایکٹ بشریٰ رند نے پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر یکم فروری 2021 کو بلوچستان اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے اکثریتی ووٹوں سے منظور کئے جانے کے دو ہفتے بعد یعنی 15 فروری کو گورنر بلوچستان کو بھیجا گیا تھا۔ گورنر نے اسی روز دستخط کر دیے اور 16 فروی کو بلوچستان اسمبلی سے آر ٹی آئی ایکٹ 2021 منظور کیا گیا۔ ایکٹ تو منظور ہوا مگر اب تک نافذالعمل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ انفارمیشن کمیشن اب تک قائم نہ ہونا ہے۔

عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے دوران ڈھائی سال میں انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا سکا اور نا ہی انفارمیشن افسران کا تقرر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں اب بھی صوبائی سطح کے سرکاری اداروں سے معلومات لینے کے لیے درخواست کے ساتھ 50 روپے فیس دی جاتی ہے جبکہ 21 دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔  قانون میں واضح ہے کہ 90 دن میں انفارمین کمیشن بننا چاہئیے اور انفارمیشن آفیسرز تعینات ہونے چاہئیں مگر 2021 میں آئی ٹی آئی کا قانون منظور ہونے کے بعد ڈھائی سال میں کمیشن نہیں بن سکا۔ کیا نگران سیٹ اپ میں انفارمیشن کمیشن بنے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے موجودہ سسٹم کو دیکھ کر کوئی حتمی بات تو نہیں کی جا سکتی البتہ سیکرٹری اطلاعات بلوچستان محمد شفقت کا کہنا ہے کہ چونکہ معلومات تک رسائی کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی عنصر ہوتا ہے، بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا قانون Right To Information Balochistan Act 2021 بن چکا ہے جبکہ انفارمیشن کمیشن کا قیام اپنے حتمی مراحل میں ہے۔ عنقریب انفارمیشن کمیشن بھی بنے گا اور افسران کی تعیناتی بھی چند دنوں میں ہو جائے گی۔

بلوچستان کو رولز آف بزنس آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2021 بنانے میں تاخیر کا سامنا ہے۔ یہ ایکٹ 2005 کے آر ٹی آئی ایکٹ کا متبادل اور بہتر ورژن ہے۔ 2021 کے ایکٹ میں بہت سی چیزیں واضح کی گئی ہیں جن کے مطابق تمام انفارمیشن افسران معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ کسی درخواست کی عدم تعمیل کی صورت میں درخواست گزار کو انفارمیشن آفیسر یا ادارے کے خلاف انفارمیشن کمیشن میں اپیل کرنے کا حق ہے۔

قانون کے مطابق معلومات فراہم کرنے کی مدت کم از کم 15 دن ہو گی جو مزید 15 دن تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ معلومات فراہم کرنے میں غفلت یا جان بوجھ کر معلومات فراہم نہ کرنے پر انفارمیشن افسران کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے جس کے مطابق دو دن کی تنخواہ کی کٹوتی یا جرمانہ جو کہ 20 ہزار روپے تک ہو سکتا ہے۔ معلومات کو غائب کرنے یا ضائع کرنے جیسے اقدامات پر دو سال قید یا جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے جو 10 ہزار سے کم نہیں ہو گا۔

بلوچستان میں آر ٹی آئی قانون بننے کے بعد انفارمیشن کمیشن میں تاخیر کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ آر ٹی آئی قانون بننے کے بعد اس پر عمل درآمد نہ ہونابلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کی بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ آر ٹی آئی قانون کا فائدہ صرف عوام کو ہونا ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنا، جبکہ فائدے اور مفادات سے خالی کوئی کام سیاسی پارٹیاں نہیں کرتیں۔ بلوچستان کی کچھ پارٹیز جو خود کو قوم پرست عوام دوست قرار دیتی ہیں لیکن یہاں وہ بھی خاموش ہیں۔ بلوچستان میں سیاست دانوں کو صرف ترقیاتی سکیموں کے بجٹ میں اپنے اپنے کمیشن کی فکر ہوتی ہے، عوامی مفادات سے انہیں کیا لینا دینا، جبکہ موجودہ نگران حکومت سے تو توقع ہی نہیں کہ وہ انفارمیشن کمیشن بنائیں گے۔ انہوں تو ابھی تک اپنے سیکرٹری انفارمیشن نہیں رکھے ہیں تو اور کیا کر سکیں گے۔ نگران حکومت اس حوالے سے بلوچستان کے صحافیوں کو اعتماد میں نہیں لے رہی اور نہ رائٹ آف انفارمیشن کمیشن کے متعلق مشاورت کر رہی ہیں کیونکہ آر ٹی آئی قانون کی ضرورت تو صحافیوں کو درپیش ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ بھی صحافیوں کو ہونا ہے۔

انفارمیشن کمیشن کے حوالے سے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ انفارمیشن کمیشن بن گیا ہے گویا کہ اس کا سٹرکچر کھڑا ہے، بس ممبران کی تعیناتی کا مرحلہ رہ گیا ہے جو ایک دو ہفتے کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہر شہری کسی بھی محکمہ سے معلومات لے سکے گا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا انفارمیشن کمیشن کے حوالے سے بلوچستان کے صحافیوں کی رائے لی گئی ہے تو انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ جہاں جس کی ضرورت ہوتی ہے ان کو آن بورڈ لیا جاتا ہے۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔