'عمران خان نے جسٹس مظاہر نقوی کو ریفرنس کے خلاف ڈٹ جانے کا مشورہ دے دیا'

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اس شوکاز نوٹس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور مؤقف اختیار کریں گے کہ میرے بارے میں یہ تاثر ہے کہ میں نے عمران خان کو سپورٹ کیا تھا اسی لیے میرے خلاف یہ سب کیا جا رہا ہے اور مجھے اس کی سزا دی جا رہی ہے۔

'عمران خان نے جسٹس مظاہر نقوی کو ریفرنس کے خلاف ڈٹ جانے کا مشورہ دے دیا'

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی خواہش ہے کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اپنے خلاف ریفرنس کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور سپریم کورٹ کے پرخچے اُڑا دیں۔ عمران خان اور پارٹی قیادت نے جسٹس مظاہر نقوی کی حمایت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکلا کو ہدایت دی ہے کہ انہیں مفت سروسز فراہم کی جائیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی دبنگ جج کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ جب بھی فیصلہ دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ان کے بارے میں کیا تاثر جائے گا بلکہ اگر وہ کسی کے دوست ہیں تو اپنی دوستی نبھاتے ہیں اور اگر کسی کے ساتھ مخالفت ہے تو سینہ ٹھوک کر مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے فوج کے ساتھ اچھے مراسم ہیں اور وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں چلتے۔ جب یہ لاہور ہائی کورٹ میں تھے تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف جاری کیے گئے ایک فیصلے کو ریورس کروا دیا تھا۔ ایک بنچ بنا تھا جس میں جسٹس مظاہر نقوی شامل تھے اور اس بنچ نے سپیشل کورٹ اور اس کے فیصلے دونوں کو اُڑا دیا تھا۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد سے وہ میڈیا پر نظر آنے لگے۔

اس کے علاوہ ان کی چوہدری پرویز الہیٰ کے ساتھ دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے بارے میں پوری قوم کو پتہ ہے۔ اس دوستی کے بارے میں کچھ آڈیو لیکس بھی قوم سن چکی ہے۔ جب چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تب انہوں نے محمد خان بھٹی کا کیس جسٹس مظاہر نقوی کی عدالت میں لگوانے کے لیے جوجا صاحب اور معروف وکیل عابد زبیری کو فون کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور آڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں چوہدری پرویز الہیٰ بارہا مظاہر نقوی کو کہہ رہے ہیں کہ بس میں آپ کے گھر آ رہا ہوں، پہنچنے والا ہوں جبکہ سپریم کورٹ کے جج انہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نہ آئیں۔ اس آڈیو میں انہوں نے محمد خان بھٹی کا حوالہ بھی دیا تھا جو اس وقت جسٹس مظاہر نقوی کے گھر میں موجود تھے۔

صحافی نے کہا کہ ایک شخص جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہو، چوہدری پرویز الہیٰ ان کے ساتھ ہوں، تگڑے سیاسی دھڑے اور کچھ معروف کاروباری شخصیات ان کے ساتھ ہوں، جس نے متعدد لوگوں کے ساتھ نیکی بھی کی ہو لیکن آخر کیوں وہ خود مشکل میں پھنس گیا ہے؟ اس کی وجہ ایک کیس ہے۔ جب چوہدری پرویز الہیٰ نے عمران خان کے کہنے پر پنجاب میں اسمبلی تحلیل کر دی تھی تو صوبے میں انتخابات کا مسئلہ تھا اور کوئی بھی اس مسئلے کو ٹیک اپ نہیں کر رہا تھا۔ تب سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کا کیس بھی چل رہا تھا جنہیں وفاق کی جانب سے ہٹایا گیا تھا لیکن انہوں نے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف اپیل کر رکھی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر مبنی دو رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا تھا کہ پنجاب میں الیکشن کیوں نہیں ہو رہے؟ وکلا کی جانب سے ردعمل آیا کہ جج صاحب یہ کیس کوئی اور ہے۔ تب انہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ مل کر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے لیے نوٹ لکھ دیا کہ آپ اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔ بعدازاں انتخابات میں التوا پر سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ازخود نوٹس لے لیا۔ کیس کی سماعت کے لیے 9 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا جو متنازع ہو گیا۔ پہلے دو جج صاحبان بنچ سے الگ ہو گئے، پھر دو اور ججز چلے گئے۔ پھر اس کیس کا فیصلہ آیا جس نے بہت سارے تنازعات کو جنم دیا۔ آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ یہ فیصلہ پانچ چار کا تھا یا پھر تین دو کا۔

اس دوران جسٹس مظاہر نقوی کے بارے میں کرپشن اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایات سامنے آنے لگیں۔ ان کے خلاف 10 شکایات سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروائی گئیں۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔ وکیل نے ریفرنس کے ساتھ جسٹس نقوی اور ان کے بیٹوں کے نام مشکوک انداز میں خریدی گئی جائیدادوں کی دستاویزات منسلک کیں۔ پاکستان بار کونسل اور پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وکلا نے بھی جسٹس نقوی پر مالی کرپشن اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے ساتھ ان کی مبینہ آڈیو لیکس کے الزامات کے تحت ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

صحافی نے بتایا کہ جب یہ شکایات جمع کروائی گئیں تو اس وقت جسٹس عمر عطاء بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور انہوں نے اپنے دور میں ایک بار بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا۔ جب سپریم جوڈیشل کونسل کے حال ہی میں ہونے والے اجلاس کا اعلامیہ جاری ہوا تو پتہ چلا کہ 12 جولائی 2021 سے اس دن تک سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی اجلاس نہیں ہو سکا تھا۔ 12 جولائی کو آخری اجلاس ہوا تھا اور اس وقت چیف جسٹس گلزار احمد تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی سر سے گزر گیا لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس نہیں بلوایا گیا۔

گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں 29 شکایتیں زیر بحث آئیں جن میں سے 19 کو خارج کر دیا گیا جبکہ 10 شکایتوں پر نوٹس جاری کر دیے گئے جن میں مظاہر نقوی کو 'مس کنڈکٹ' کا نوٹس بھی شامل ہے۔ عمومی روایت یہ ہے کہ جب کسی جج کے بارے میں شکایت آتی ہے تو پہلے اس کا جواب دیا جاتا ہے اور جب چارج لگا دیا جاتا ہے تب شوکاز نوٹس جای کیے جاتے ہیں لیکن انہیں براہ راست نوٹس جاری کیا گیا اور 14 دن میں جواب طلب کیا گیا ہے۔

اس وقت جسٹس مظاہر نقوی کے پاس 2 آپشنز ہیں۔ ایک یہ کہ بطور سپریم کورٹ جج اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور اپنی پنشن اور مراعات کو انجوائے کریں کیونکہ اگر کوئی جج استعفیٰ دے دیتا ہے تو اس کی پنشن اور مراعات برقرار رہتی ہیں۔ دوسرا آپشن ان کے پاس یہ ہے کہ شوکاز نوٹس کو 184(3) کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیں۔

جسٹس مظاہر اس شوکاز نوٹس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور مؤقف اختیار کریں گے کہ ان کے اثاثوں پر بحث ہو۔ ایف بی آر، رجسٹرارز، سول بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو بلوا کر ان کے اثاثوں کی تصدیق کی جائے گی۔ اس دوران مظاہر نقوی پوری کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ اور ساتھی ججز کے ساتھ معاملات ہموار کر لیں۔ وہ یہ مؤقف اختیار کریں گے کہ میرے بارے میں یہ تاثر ہے کہ میں نے عمران خان کو سپورٹ کیا تھا اسی لیے میرے خلاف یہ سب کیا جا رہا ہے اور مجھے اس کی سزا دی جا رہی ہے۔

لیکن تین مسائل ان کی راہ میں حائل ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب چیف جسٹس کا 184(3) کا اختیار تبدیل ہو چکا ہے اور بنچ تین سینیئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے گی جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ بنچ کتنے رکنی ہو گا اور اس میں کون کون شامل ہو گا، اس کا فیصلہ یہ تین ججز کریں گے۔ ان میں سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جسٹس مظاہر کو کوئی ریلیف نہیں دیں گے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے کوئی ریلیف دیے جانے کا امکان ہے کیونکہ وہ ان کے ہم خیال گروپ کا حصہ ہیں۔ لہٰذا اگر ہم خیال بنچ ہو گا تو جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شوکاز کو خارج کر دے گا لیکن اگر ہم خیال گروپ نہ ہوا تو جسٹس مظاہر نقوی کا بچنا مشکل ہے۔ یہ شوکاز برقرار رہے گا اور انہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کروانا پڑے گا۔ اس صورت میں جسٹس مظاہر نقوی استعفیٰ دے دیں گے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے خائف ہو گئی ہے کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کیس میں انتخابات کے معاملے کو گھسیٹ کر کہرام برپا کر دیا تھا۔ جب ان کی جائیدادوں کی تحقیقات شروع ہوں گی تو اسٹیبلشمنٹ اور ریاست ان کو سپورٹ نہیں کرے گی جس کا انہیں نقصان ہو گا۔

تیسری مشکل یہ ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کو سپورٹ کرنے والے تمام افراد اس وقت زیرعتاب ہیں۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الہیٰ جیل میں ہیں اور جو وکلا ان کے دوست ہیں وہ ان سے کنارہ کشی کرنے لگے ہیں کیونکہ وہ ان کو سپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ چونکہ ان کے خلاف ایک پٹیشن پاکستان بار کونسل کی ہے لہٰذا وکلا کی اکثریت بھی ان کے خلاف ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ یہ اپنے وکیل بیٹوں کو بہت سپورٹ کرتے ہیں اور ان کا کیس جس بھی جج کے سامنے لگا ہوا ہو اس کو فون کر کے 'فیورایبل' فیصلہ دینے کو کہتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کا معاملہ بہت سنگین ہے اور لگتا نہیں کہ وہ بچ پائیں گے لیکن ایسے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ان کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کو اب اپنے حق کے لیے ڈٹ جانا چاہئیے اور کیس لڑنا چاہئیے۔ انہوں نے اپنے وکلا کے ذریعے پی ٹی آئی کے تمام وکلا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ جسٹس مظاہر نقوی کو مفت سروسز فراہم کریں۔ انصاف وکلا فورم اور پارٹی قیادت نے بھی مظاہر نقوی کی حمایت کا اعلان کیا ہے تا کہ بعد میں اس معاملے کو بنیاد بنا کر عدالت کی ٹرولنگ کی جا سکے۔