Get Alerts

دائروں کا سفر

دائروں کا سفر
منیر نیازی مرحوم کمال کے شاعر تھے۔ یوں تو ان کے انگنت اشعار ایسے ہیں جنہیں مکرر پڑھ کر بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی لیکن ملکی حالات کے تناظر میں ان کا یہ شعر جتنی بار پڑھتا ہوں اتنے ہی اس کے معنی مجھ پر منکشف ہوتے جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

اب زرا غور کیجیے کہ بنگلہ دیش جو ہم سے 24 سال بعد آزاد ہوا۔ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم ابھی تک دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ پائیدار ترقی کیلئے نظام کا تسلسل ضروری ہوتا ہے لیکن ہم ہر چند سال بعد نیا تجربہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا ہوتا ہے۔

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا البتہ دوسرے کے کاموں میں دخل دینا فیشن بن گیا ہے۔ ڈاکٹر حضرات طب کا پیشہ چھوڑ کر ٹی وی اینکر بن بیٹھے ہیں۔ کرکٹ کے ریٹائرڈ کھلاڑی کو کھیل کی بہتری کیلئے کرکٹ بورڈ میں لگانے کے بجائے ملک کا وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔ ججز موومنٹ کے بعد وکلا کسی قانون کے تابع نہیں رہے، وہ اب ججز کو احکامات جاری کرتے ہیں اور تعمیل نہ ہونے پر عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے ججز واٹس اپ پر احکامات وصول کر کے جے آئی ٹی بناتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کی نگرانی پر مامور کئے جاتے ہیں۔ ہسپتال، یونیورسٹی اور ذرائع مواصلات درست کرنے کیساتھ ساتھ ڈیم بنانے کا فریضہ بھی اپنے سر لے لیتے ہیں اور ظاہر ہے اتنے کام کرنے کے بعد ان بیچاروں کے پاس وقت کہاں بچتا ہے جو وہ اپنا کام کریں۔

اب رہ گئے ہمارے محافظ تو جہاز وہ چلاتے ہیں، ہاوؑسنگ سوسائٹیز وہ بناتے ہیں، بینک وہ چلاتے ہیں، کھاد کے کارخانے وہ چلاتے ہیں، پٹرول پمپ، بیکریاں اور نہ جانے کیا کیا کچھ کرتے ہیں۔ اب رہ گیا ان کا اپنا کام اس کے بارے میں سوال کرنے والا غدار کہلاتا ہے۔

سیاستدان اپنے پروگرام کے تحت ووٹ لے کر اسمبلی میں آتے ہیں تو عوام سے کئے وعدے کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن یہیں پر کچھ ان دیکھی رکاوٹیں راستہ کی دیوار بن جاتی ہیں۔ جب ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو خود یا عدلیہ کے ذریعہ اس کو جیل کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی عقل کل نہیں۔ ہم پہلے ہی قومی زندگی کے 72 قیمتی سال ضائع کر چکے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے مل کر بیٹھیں کھلے دل سے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کریں، اپنی حدود کا تعین کریں، ایک میثاق پر دستخط کریں اور پھر صدق دل سے اس پر کاربند رہیں ورنہ دائروں کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا اور ہم عالمی برادی میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔