پاکستان نے طالبان حکومت کو افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد دینے کی مشروط پیشکش کر دی

پاکستان نے طالبان حکومت کو افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد دینے کی مشروط پیشکش کر دی
پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدافغان فوج کی تنظیم نو میں مدد دینے کی پیشکش کی ہے اور اس سلسلے میں افغان حکام سے بات چیت بھی ہوئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ پاکستانی فوج کی سنیئرعسکری قیادت نے افغان فوج کی تنظیم نو میں مدد کرنے کی مشروط پیشکش کی ہے، اس بارے میں بی بی سی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حالیہ دورہ کابل کا ایک مقصد اسی معاملے پر بات چیت کرنا بھی تھا۔

تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش پاکستان کی جانب سے موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کیے جانے اور افغان فوج میں تمام حلقوں کی نمائندگی سے مشروط ہے پاکستانی فوج کے ایک اور اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت تو ہے تاہم فی الحال اس کا کوئی باقاعدہ روڈ میپ موجود نہیں اور ایسا کوئی بھی اقدام مستقبل قریب میں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کر لیا جاتا۔

پاکستان اس بارے میں پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کو کسی بیرونی قوت سے کوئی خطرہ نہیں ہے انہیں ایک مضبوط پولیس اور بارڈرمینجمنٹ فورس کی ضرورت ہے، اگر ان کی تربیت کی درخواست کی گئی تو پاکستان کی حکومت اس معاملے پر فیصلہ کرے گی۔

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گاگذشتہ دو ماہ کے دوران جب طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے تو اس دوران بعض علاقوں میں افغان فوجی دستوں کے ہتھیار ڈالنے اور کئی مقامات پر طالبان جنگجوؤں کے ساتھ شامل ہونے کی خبریں سامنے آئیں یہی نہیں بلکہ بعض علاقوں میں مقامی حکام نے یقینی شکست دیکھتے ہوئے اور خون خرابہ روکنے کے لیے افغان فوجی دستوں کو ہدایات دیں کہ طالبان سے نہ لڑا جائے۔

خیال رہے کہ امریکہ نے افغانستان کی افواج کی تربیت کا اربوں ڈالر کا منصوبہ 2002 میں شروع کیا تھا اس سے قبل طالبان کے دور حکومت میں 1997 میں طالبان نے اسلامک آرمی آف افغانستان کے نام سے فوج قائم کی تھی اس سے قبل 1960 سے 1990 تک افغانستان کی مسلح افواج کی تربیت اور ان کے پاس موجود اسلحہ روس کی طرف سے تھا 2002 میں امریکہ نے افغان آرمی جبکہ 2005 میں پولیس اور ایئرفورس کی تربیت کا بیڑا اٹھایا تاہم امریکی ادارے سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن (سیگار) کی ایک رپورٹ کے مطابق خود امریکہ نے افغان فوج کی جنگی تیاری سے متعلق درست اندازے نہیں لگائے اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی موثر اور طویل المدتی طریقہ کار موجود تھا۔

ان کے مطابق افغانستان کے لیے بھی اگر پاکستان کے فوجی دستے گئے تو پاکستان خود ہی ان کو تنخواہیں دے گا لیکن فضائیہ کی تربیت خاصی مہنگی ہوتی ہے اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس میں پاکستان ہرگز اکیلا نہیں ہوگا بلکہ خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ چین یا مشرق وسطیٰ سے قطر وغیرہ اس تمام عمل کا حصہ ہوں گے ایسا پہلی بار نہیں کہ پاکستان کسی ملک کی فوج کو تربیت دے گا اور نہ ہی یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو یہ پیشکش کی ہے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اس وقت حامد کرزئی کو یہ پیشکش کی تھی جب 2002 اور پھر 2005 میں امریکہ اور نیٹو فورسز کی جانب سے یہ منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ افغانستان میں فوج اور پولیس کی موثر قیام اور جنگی تربیت کی ضرورت ہے۔

پاکستانی فوج کے ایک سینیئر اہلکار نے” بی بی سی“ کو بتایا کہ ایسی دوسری پیشکش افغان صدر اشرف غنی کو سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے اس وقت کی تھی جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے آرمی چیف نے کہا کہ ہم آپ کو ایک بریگیڈ کھڑی کر دیتے ہیں جو بالکل اسی طرز پر ہو گی جس پر پاکستان کی انفنٹری بریگیڈ ہو سکتی ہے اشرف غنی نے اس پیشکش کو سراہاتھا مگر افغانستان واپس جانے کے بعد انہوں نے انکار کر دیا یوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان فوجی تعاون نہایت محدود رہا۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ 2015 میں چھ افغان کیڈٹس پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول پہنچے جہاں انہوں نے اٹھارہ ماہ کا تربیتی کورس مکمل کیا تھا اس سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان نہایت محدود پیمانے پر عسکری تعاون قائم تھا، جس کا زیادہ حصہ انٹیلیجنس شیئرنگ سے متعلق تھا جو پاکستان بنیادی طور پر امریکی اور نیٹو فورسز کے ساتھ تھا. خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان بیورکریسی کی تربیت کے بعض پروگرام تو موجود تھے تاہم فوجی تربیت کے معاہدے افغانستان نے خطے میں انڈیا کے ساتھ رکھے کسی بھی ملک کی فوج کو تربیت دینا کئی برسوں پر مشتمل منصوبہ ہوتا ہے اس کی مدت معیاد اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کیا اس فوج کا بنیادی انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے یا نہیں اس سلسلے میں سب سے پہلے اس ملک کا مکمل تجزیہ کیا جاتا ہے کہ وہاں سلامتی کے محرکات کیا ہیں، خطرے کی سطح کیا ہے۔

میں زمبابوے کی حکومت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ نہ صرف ان کی ایئر فورس کی تربیت کی جائے بلکہ پاکستان ایئرفورس کے ایک افسر کو زمبابوے کی فضائی فوج کا سربراہ بھی مقرر کیا جائے یوں پاکستانی فضائیہ میں صوبہ سندھ کے پہلے پائلٹ ایئرمارشل محمد اعظم داؤد پوتا زمبابوے ایئرفورس کے سربراہ تعینات ہوئے. مگر دیگر افواج کی تربیت کا یہ سلسلہ اس سے کئی برس پہلے کا ہے، جبکہ پاکستانی افواج کے افسران خود بھی دیگر ممالک خاص طور پر برطانیہ میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ پانچ ممالک کی بحری افواج کے سربراہان پاکستان کی نیول اکیڈمی کے گریجویٹس تھے پاکستانی فوج کی ویب سائٹ کے مطابق فوج کی کاکول میں موجود اکیڈمی پی ایم اے سے اب تک پچپن ممالک کے19 ہزار افسران نے تربیت حاصل کی ہے۔

1983 میں زمبابوے کی حکومت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ نہ صرف ان کی ایئر فورس کی تربیت کی جائے بلکہ پاکستان ایئرفورس کے ایک افسر کو زمبابوے کی فضائی فوج کا سربراہ بھی مقرر کیا جائے یوں پاکستانی فضائیہ میں صوبہ سندھ کے پہلے پائلٹ ایئرمارشل محمد اعظم داؤد پوتا زمبابوے ایئرفورس کے سربراہ تعینات ہوئے. مگر دیگر افواج کی تربیت کا یہ سلسلہ اس سے کئی برس پہلے کا ہے، جبکہ پاکستانی افواج کے افسران خود بھی دیگر ممالک خاص طور پر برطانیہ میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ پانچ ممالک کی بحری افواج کے سربراہان پاکستان کی نیول اکیڈمی کے گریجویٹس تھے پاکستانی فوج کی ویب سائٹ کے مطابق فوج کی کاکول میں موجود اکیڈمی پی ایم اے سے اب تک پچپن ممالک کے19 ہزار افسران نے تربیت حاصل کی ہے۔

اس وقت پاکستان میں 759 غیر ملکی افسران زیرتربیت ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق عرب اور افریقی ممالک سے ہے پاکستانی فوج تین سطح پر تربیت فراہم کرتی ہے جس میں سب سے پہلے پی ایم اے کا گریجویٹ کورس جبکہ دیگر رینکس کے لیے ملک میں موجود ریجنل تربیتی مراکز اور سینیئر افسران کے لیے سٹاف کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور دیگر انسٹالیشنز ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے 1970 کی دہائی کے دوران مختلف ممالک، خاص طور پر عرب ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون اور فوجی تربیت فراہم کرنے کے معاہدے کیے 1980 کی دہائی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان کے ساٹھ ہزار اہلکار عرب ممالک میں تعینات تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 20 ہزار صرف سعودی عرب میں موجود تھے یہ اہلکار ان ممالک کی افواج کی تربیت اور بنیادی انفراسٹرکچر قائم کرنے میں ان کی مدد کر رہے تھے۔

پاکستان نے سعودی عرب، لیبیا، اردن، عراق، اومان متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ تربیتی معاہدے کیے واضح رہے کہ ان ممالک کے یہ معاہدے صرف پاکستان کے ساتھ نہیں تھے اسی طرح سری لنکا میں انسداد دہشت گردی آپریشنز میں پاکستان نے ان کی فوج کی مدد کی تھی اس وقت جہاں دیگر ممالک کے کیڈٹس اور افسران پاکستانی فوج کے مختلف تربیتی اداروں میں زیر تربیت ہیں، اسی طرح خود پاکستان کے افسران اور سروس مین بھی دیگر ممالک میں تربیت پاتے ہیں اس سلسلے میں پاکستان کا برطانیہ، ترکی، امریکہ اور چین کے ساتھ تعاون کے معاہدے موجود ہیں۔

پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز کے لیے فوجی دستے بھیجنے والا ایک بڑا ملک ہے اس کے علاوہ پاکستان امریکہ، روس، ترکی، چین، آذربائیجان، ملائشیا سمیت دیگر کئی ممالک کے ساتھ باقاعدہ فوجی مشقیں اور تربیتی تبادلے بھی کرتا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے فوج کو مزید مضبوط کیا ہے اور اب فوج کے پاس روایتی جنگ کے علاوہ انسداد دہشت گردی آپریشنز کا وسیع تجربہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ فوجی تربیت کے معاملے پر پاکستان کو ایک ”بین الاقوامی فوج“ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔