سست معاشی ترقی، غربت اور معاشی ناہمواری میں اضافے، اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کے مسائل اور توانائی کے بحران کے باوجود ہمارے نگران حکمران قومی وسائل کو ہوا میں اس طرح اُڑا رہے ہیں جیسے وہ دنیا کی متمول ترین اقوام کے فرد ہوں۔ نگران وزیر اعظم کے نیویارک کے حالیہ دورے اور واپسی پر برطانیہ میں قیام کے دوران ہونے والے ہوشربا اخراجات، جن کا بوجھ ٹیکس دہندگان پر پڑا، اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اُنہیں عوام کے پیسے کو بے دریغ خرچ کرنے میں کوئی عار نہیں۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے قائم ہونے والی منتخب حکومتیں، قومی وسائل کو سنگدلی سے خرچ کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ یہ سلسلہ تو فوجی ڈکٹیٹر حضرات کے زمانے میں بھی تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ جاری و ساری رہا۔
آج دیکھا جا سکتا ہے کہ ہماری فاقہ مستی کیا رنگ لائی ہے۔ ہمارے سیاسی حکمران اور طاقتور اشرافیہ کے نمائندگان بادشاہوں کی طرح دریا دلی سے اسراف کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم اربوں کھربوں روپوں کی مقروض ہے، لیکن عوام کے ان نام نہاد خیر خواہوں اور برائے نام جمہور پسندوں کے لیے قرض لینا ایک نشہ اور خرچ کرنا ایک تفریح ہے۔
گذشتہ تین سال کی 'سپلیمنٹری ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنز' سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم، صدر مملکت، گورنرز اور وزرا کی عالی شان رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ یہ دلخراش شاہ خرچی اُس ملک میں روا رکھی گئی جس کی آبادی کا 35 فیصد (ورلڈ بینک کی حالیہ رپوٹ اور ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کے مطابق) 2 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی غربت کی نشاندہی کرتی ہے، لیکن حکمران اس سے لاتعلق، اپنی شاہ خرچیوں میں مگن ہیں جیسے وہ ایسی رومانوی دنیا میں رہتے ہوں جہاں مسائل کا گزر ہی نہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 2022 کے مطابق پاکستان کا 187 ممالک میں سے 156 واں نمبر ہے۔ اس کے تین کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے اور یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 الف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
تعلیم کا حق
25الف؛
'ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو لازمی تعلیم قانون کے طے شدہ طریقے کے مطابق مفت فراہم کرے گی'۔
تاہم ملک کی مایوس کن صورت حال کے برعکس وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا یومیہ خرچ 15 ملین روپے ہے۔ 2012-13 میں یہ خرچ محض 30 لاکھ یومیہ تھا، لیکن اب صرف 10 برسوں میں اس میں 500 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ شاید ہمارے ہاں ترقی اسی کو کہتے ہیں۔
انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت فضول اخراجات کم کرنے، کفایت شعاری برتنے، معاشی اصلاحات لانے، ترقی کی شرحِ نمو میں اضافہ کرنے، روزگار اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے سوشل تحفظ دینے کے اعلانات کرتی ہے، لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ غریب عوام پر مزید ٹیکس لگا کر اشرافیہ کو عیش کراتی دکھائی دیتی ہے اور یہ وعدہ خلافیاں حادثہ نہیں، معمول ہیں۔ اس صورت حال کو مزید تکلیف دہ بنا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور اراکینِ پارلیمنٹ خود برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں (ایف بی آر کی طرف سے ماضی میں شائع کردہ ٹیکس ڈائریکٹریز اس بات کی گواہ ہیں) حالانکہ اُن کی آمدن ہوشربا حد تک زیادہ ہوتی ہے، لیکن پھر ان کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ ان سے ایف بی آر پوچھتا ہے، نیب اور نا ہی مروجہ انتخابی 'رسم' کے تحت ووٹنگ اُن کا احتساب کر پاتی ہے۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے 2013 کی بجٹ تقریر کے دوران بطور وزیر خزانہ ایوان کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے آفس کے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً ایسا ہونا چاہئیے تھا، لیکن 'ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنز' کے وائٹ پیپرز کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ اخراجات کے لیے 2013-14 کا نظرثانی شدہ تخمینہ 755 ملین روپے، 2014-15 کا 801 ملین روپے اور 2015-16 کا 842 ملین روپے تھا۔ اگلے دو سال میں اس میں سالانہ 50 فیصد کا اضافہ ہوتا رہا۔ یہ اُس ملک کے وزیر اعظم ہاؤس کی شاہ خرچیاں ہیں جہاں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 50 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی۔
اس کے بعد تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال کے دور میں بھی شاہ خرچیوں کا سلسلہ پوری شد و مد کے ساتھ جاری رہا، اور وہ بھی قرضوں کے بل بوتے پر۔
پی ڈی ایم نے اپنے 16 ماہ کے دور میں تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ مرکزی حکومت نے مالیاتی سال 2023 میں محصولات، ٹیکس اور غیر ٹیکس کی مد میں 8.87 ٹریلین روپے اکٹھے کیے، اور صوبوں کو ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 4.22 ٹریلین دینے کے بعد، بقیہ رقم 4.65 ٹریلین میں سے 11.33 ٹریلین کے اخراجات پورے کیے۔ دوسرے لفظوں میں 6.68 ٹریلین کے مزید قرضے حاصل کیے۔
یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ صرف قرضوں پر سود کی رقم 5.83 ٹریلین تھی، یعنی دستیاب آمدن سے 1.18 ٹریلین زیادہ۔ نا صرف سود کے لئے مزید قرضہ لیا گیا، بلکہ باقی تمام تر اخراجات جن میں ممبران قومی اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈ بھی شامل تھے، مہنگے ادھار سے پورے کیے گئے۔
یہ سب اس ملک میں روا ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 31.6 فیصد بچے خوراک اور وزن کی کمی کا شکار ہیں اور عوام کی اکثریت کے لیے صحت کی سہولیات ایک خواب ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 86 بچے فی ہزار، زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کا تناسب 170 فی ایک لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں شہری تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، جبکہ رہائش کی سہولیات پر نجی شعبے نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
حکومتی جاری اخراجات 90 فیصد اور ترقیاتی صرف 10 فیصد رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا الٹ ممکن ہے؟ ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت کا دیوہیکل سائز کم کر دیا جائے۔ اس وقت حکومت چلانے کا یومیہ خرچہ کئی سو بلین روپے ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے رقم ادھار لینا پڑتی ہے۔
اب دفاع، عدلیہ اور سول بیورو کریسی، ایوان صدر، وزیر اعظم اور گورنر ہاؤسز کا سب خرچہ قرض میں لی گئی رقم سے پورا ہوتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اگرچہ صدر مملکت کا عہدہ پارلیمانی نظام میں محض رسمی ہے لیکن اس پر بھی 3 بلین روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں خرچ تو کھلے دل سے کیا جاتا ہے، لیکن قائم ہونے والی مسلسل کئی ایک حکومتوں، چاہے سول ہوں یا فوجی، نے وفاقی سطح پر ٹیکس کو 14 ٹریلین روپے تک لے جانے کی کبھی کوشش نہیں کی، حالانکہ ہمارے ہاں اس کا پوٹینشل موجود ہے۔ کبھی بھی اخراجات میں کمی لانے کا نہیں سوچا گیا۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت مزید قرض لینے کے لیے تیار ہے اور قوم ان کو مزید غیر ملکی دورے کرتے اور قیمتی زرمبادلہ خرچ کرتے ہوئے دیکھے گی۔ اس کے علاوہ سرکاری افسرشاہی کو حاصل مراعات پر بھی بھاری اخراجات اٹھتے ہیں۔
دوسری جانب پبلک آفس رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے اخراجات میں کمی کرنے سے معیشت کی حالت بہتر نہیں ہو گی کیونکہ ان کے اخراجات کل اخراجات کا بہت کم حصہ ہیں۔ تاہم وہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی اپنی آسائش کے بجائے عوام کو ہونا چاہئیے۔ آئین کا آرٹیکل 3 کہتا ہے؛ 'ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ یقینی بنائے گی، بتدریج بنیادی اصول نافذ کرتے ہوئے ہر کسی کو اُس کی صلاحیت کے مطابق سہولت اور کام فراہم کرے گی'۔ اگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوتا تو پھر آرٹیکل 5 (1) پر عمل درآمد کیسے ہو گا، جو کہتا ہے؛ 'ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے'۔ آئین دراصل ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہوتا ہے۔ قانون سازوں اور سرکاری افسروں کی طرف سے اس کی ذرا برابر سرتابی قابل قبول نہیں۔