کائنات میں خلائی مخلوق کا وجود حقیقت ہے؟ پینٹاگون نے پہلی بار پر اسرار اڑن طشتریوں کی ویڈیوز جاری کردیں

کائنات میں خلائی مخلوق کا وجود حقیقت ہے؟ پینٹاگون نے پہلی بار پر اسرار اڑن طشتریوں کی ویڈیوز جاری کردیں
کئی صدیوں سے انسان آسمان کے متعلق متجسس رہا ہے اور اسکی پر اسراریت نے داستانوں، تحقیق، عقائد میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ لیکن جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے دور میں  یہ بحث شد و مد کے ساتھ جاری رہی ہے کہ آیا اس کائنات میں کرہ ارض کے علاوہ کسی اور سیارے یا خلائی اجسام پر کوئی مخلوق بستی ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے دیومالائی کہانیاں عام رہی ہیں جنہیں مختلف خطوں میں مختلف انداز میں اپنایا اور بیان کیا جاتا رہا ہے تاہم ان میں اکثر اڑن طشتریوں کا ذکر مشترک پایا جاتا ہے۔

ان غیر شناخت شدہ اشیا کو اصطلاح عام میں اڑن طشتریوں کے نام سے جانا جاتا ہے جنہیں انگریزی میں ان آئی ڈینٹیفائڈ آبجیکٹس ( یو ایف او) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی جدید کہانی کا تعلق سنہ 1947 میں ایک قصے سے جا ملتا ہے، جب ایک کسان نے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے شہر روس ویل میں ایک ملبہ دریافت کیا تھا  جسے سوویت یونین کی نگرانی کے لیے کسی خفیہ بیلون پروگرام کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔اس کے بعد مبینہ طور پر جدید ترین طیاروں کی ٹیسٹنگ کے لیے نیواڈا میں مختص ایریا 51 کے نام سے مشہور جگہ مبینہ طور پر یو ایف او پر تحقیق کے ایک ادارے میں تبدیل کر دی گئی۔ اس حوالے سے سنسنی خیز سازشی مفروضوں پر مبنی داستانوں کے سنانے والوں کے مطابق یہی وہ مقام تھا جہاں امریکی حکومت نے اس جدید خلائی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

نئی صدی کے آغاز سے پر اسرار اڑن طشتریوں کے ذکر اور انکی موجودگی کے بارے دعووں نے اس وقت زور پکڑا جب سنہ 2004 میں دو امریکی نیوی پائلٹوں نے بحرالکاہل میں سو میل اندر ایک بیضوی ہیئت رکھنے والی پراسرار اور برق رفتار  چیز جو پانی کے اوپر اڑ رہی تھی، کی ویڈیو بنائی ۔ تاہم اسکے معتبر ہونے پر سوالات اٹھے اور یہ ایک متنازع دعویٰ بن گیا۔ اسکے بعد یہ بحث دیومالائی داستانوں کے طور پر سمجھی جانے لگی لیکن  سنہ 2015 میں  ایک بار پھر دو ایسی ویڈیوز بنائی گئیں جن میں دو غیر شناخت شدہ اشیا  موجود تھیں، جن میں سے ایک فضا میں گھوم رہی تھی۔  تاہم ان اڑن طشتریوں کو امریکی خفیہ پروگرام سے جوڑنے کے سازشی مفروضے اس وقت دم توڑ گئے جب سنہ 2017 میں پینٹاگون نے بالآخر تسلیم کر لیا کہ اس نے مبینہ یو ایف او کی تحقیق کا پروگرام ختم کر دیا ہے۔

https://twitter.com/Ruptly/status/1255335915570049025

نومبر 2018  میں خلائی اڑن طشتریوں کے حوالے سے بحث نے ایک بار پھر سر اٹھایا جب آئرش ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا کہ وہ ان اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہے جن میں ایک فلائٹ کے پائلٹس نے کہا ہے کہ انھیں آئرلینڈ کے جنوب مغربی ساحل پر آسمان میں تیز روشنی نظر آئی اور اڑن طشتریاں دکھائی دیں۔ برٹش ایئر ویز کی یہ پرواز کینیڈا کے شہر مونٹریال سے ہیتھرو جا رہی تھی۔ پائلٹ نے  کنٹرول ٹاور سے پوچھا کہ  ’بہت تیز روشنی‘ ہے اور ایک شے ان کے جہاز کے ’بائیں جانب آئی اور پھر تیزی سے شمال کی جانب تیزی سے مڑ گئی کیا کوئی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں؟ جس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ اس علاقے میں کوئی مشقیں نہیں ہو رہیں۔اس پائلٹ نے بتایا کہ کئی اشیا ایک ہی جیسی حرکت میں ہیں اور ان سے بہت تیز روشنی نکل رہی ہے۔ پائلٹ نے مزید کہا کہ انھوں نے دائیں جانب دو تیز روشنیاں دیکھیں جو تیزی سے اوپر کی جانب گئیں۔


تاہم اب اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس نئی پیش رفت نے ایک بار پھر چوکنا کر دیا ہے جس میں امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پینٹا گان نے اڑن طشتریوں کی پائلیٹس کی جانب سے بنائی گئی تصدیق شدہ ویڈیوز جاری کرتے ہوئے ان کی موجودگی اور انکے بارے میں زیادہ  معلومات نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی محکمہ دفاع نے فضا میں نظر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیا یا اڑن طشتریوں کی تین ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔ پینٹاگون نے کہا ہے کہ ان ویڈیوز کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا مقصد ان کے اصلی یا نقلی ہونے سے متعلق عوام کو غلط فہیموں سے بچانا ہے۔  پینٹاگان کے مطابق ان ویڈیوز میں جو چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں انھیں ابھی ’غیر شناخت شدہ‘ تصور کیا جاتا ہے۔

جاری کی جانے والی یہ تین ویڈیوز دراصل وہی ویڈیوز ہیں جن میں سے دو کو پہلے امریکا کے موقر اخبار نیویارک ٹائمز نے 2004 میں شائع کیا تھا۔ جبکہ ایک گلوکار ٹام ڈی لانگ نے جاری کی تھی۔

ماہرین کے مطابق پینٹاگان کی جانب سے اس ویڈیوز کی تصدیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اس کائنات میں اکیلا نہیں ہے اور صرف کرہ ارض ہی واحد سیارہ نہیں جس پر زندگی کا وجود ہے۔ اس حوالے سے تحقیق ہونا لازم ہے جب کہ یہ دفاع کے تصور کو ایک نئی جہت دیتا ہے جس کے بارے میں کسی کو زیادہ معلوم نہیں۔

تاہم پینٹاگون کی جانب سے اس پیش رفت کے بعد اب سوئٹزرلینڈ کے شہری بلی مائیر کے اس دعووں کی گونج پھر سے زندہ ہوئی ہے جس  نے 1970 کی دہائی میں دعوی کیا تھا کہ وہ خوشہ پروین نامی ستاروں کے جھرمٹ میں بسنے والی خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے تصویری شواہد بھی موجود ہیں جن کو بعد میں نیلامی کے لئے بھی پیش کیا گیا تھا۔