پاکستان کا خلائی مشن سے خلائی مخلوق تک کا سفر

اس کے بعد سپارکو میں مزید خلائی مشن اور تجربات کیلئے لگن بڑھ گئی اور تیزی سے کام ہونے لگا۔ لیکن پھر کچھ عوامل ایسے رونما ہوئے جنہوں نے سپارکو کو بھی ان اداروں کی قطار میں لا کھڑا کیا جو ریاست اور عوام پر سوائے بوجھ کے کچھ نہیں ہیں۔ کروڑوں اربوں کے سالانہ بجٹ اور تنخواہوں کے ساتھ دھیلے کا کام نہیں کر رہے۔

پاکستان کا خلائی مشن سے خلائی مخلوق تک کا سفر

دنیا بھر میں ترقی کے نمایاں اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ؛ ‘Right person for the right job’، اس کو اردو کہاوت میں یوں کہا جاتا ہے کہ 'جس کا کام اسی کو ساجھے'۔ اس اصول پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم ہر شعبے میں ترقی اور بہتری لا سکتے ہیں، مگر افسوس کہ پاکستان کے قیام کے چند سال بعد سے ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ دوسروں کے کام میں مداخلت اور قبضہ کیا جانے لگا۔

ملک خداداد میں سیاست و صحافت سمیت ہر شعبے میں من پسند افراد کی تعیناتی نے ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ ملک کا مستقبل یعنی یہاں کے نوجوان اب اپنی دھرتی کو چھوڑ کر اس ملک میں جانے کی بھاگ دوڑ میں لگے ہیں جس سے بڑے فخر سے ہم نے 76 برس قبل آزادی حاصل کی تھی۔

بھارت نے بالآخر چندریان 3 کا کامیاب تجربہ کر لیا اور چاند پر پہنچ گیا مگر اس سب کے ساتھ جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ آخر کیسے؟ اور کیوں؟ بھارت کیوں پہنچ گیا اور ہم کیوں نہ پہنچ پائے؟

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ بھارتی خلائی ادارے ISRO کی بنیاد کس نے رکھی اور پھر پاکستان کے سپارکو کی بنیاد کس نے رکھی، اس کے ساتھ ساتھ جو موازنہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اوائل میں کون کامیاب رہا اور حال میں دونوں کے مابین جو زمین و چاند کا فرق آیا وہ کیوں آیا۔

ہندوستان میں ISRO کی بنیاد جواہر لعل نہرو نے رکھی تھی، جو کہ اس وقت INCOSPAR کہلاتا تھا اور یہ 1962 میں بنائی گئی بھارتی خلائی کمیٹی تھی جو بعد میں 1969 میں ISRO کہلائی، جبکہ پاکستان میں سپارکو کی بنیاد نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی تجویز پر ایوب خان کے دور میں 1961 میں رکھی گئی۔

اب آ جاتے ہیں کامیابیوں پر۔ پاکستان نے سپارکو بننے کے صرف 9 ماہ بعد ایک کامیاب خلائی راکٹ کا تجربہ ڈاکٹر عبدالسلام کی قیادت میں اور دیگر 5 ماہرین؛ ڈاکٹر طارق مصطفیٰ، ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی (چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، انیس احمد خان شیروانی (سیکرٹری، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، ایس این نقوی (ڈائریکٹر، محکمہ موسمیات) اور محمد رحمت اللہ پر مشتمل کمیٹی نے کیا جس کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر کے کامیاب ممالک اور خلائی کمیشن نے پاکستان کو مبارک باد دینا شروع کی۔ اس وقت تک بھارت نے خلائی مشن کے حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔

اس کے بعد سپارکو میں مزید خلائی مشن اور تجربات کیلئے لگن بڑھ گئی اور تیزی سے کام ہونے لگا۔ لیکن پھر کچھ عوامل ایسے رونما ہوئے جنہوں نے سپارکو کو بھی ان اداروں کی قطار میں لا کھڑا کیا جو ریاست اور عوام پر سوائے بوجھ کے کچھ نہیں ہیں۔ کروڑوں اربوں کے سالانہ بجٹ اور تنخواہوں کے ساتھ دھیلے کا کام نہیں کر رہے البتہ سپارکو کے نام پر ہاؤسنگ سوسائٹی ضرور بنائی جا چکی ہیں۔

سب سے پہلے جو بدقسمتی اس ملک پر اتری وہ مذہبی انتہا پسندی تھی جس میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے پہلے انسان اور دنیا بھر میں پاکستان کو عالمی نقشے پر نمایاں کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کی بنیاد پر یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا گیا کیونکہ ان کا مسلک و مذہب احمدی تھا اور پاکستان کی پارلیمان نے آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم ڈکلیئر کر دیا تھا۔

اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ مداخلت کا تھا کیونکہ سپارکو کا ادارہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز تھا لہٰذا اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے دیگر اداروں کی مداخلت شروع ہوئی جن کا سائنس، خلا بازی سمیت متعلقہ شعبے میں صفر تجربہ اور تعلیم تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے فنڈز کا مسئلہ درپیش آنے لگا جس کے بارے میں ایک انٹرویو میں ڈاکٹر طارق مصطفیٰ (جو ان پانچ افراد میں شامل تھے جنہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ مل کر پہلا کامیاب تجربہ کیا تھا) نے بتایا کہ سپارکو کو اتنے وسائل نہیں دیے گئے اور پاکستان کی توجہ مختلف وجوہات کی بنا پر دفاعی جانب زیادہ رہی۔

خود ڈاکٹر طارق مصطفیٰ بھی سیکرٹری دفاعی پیداوار ڈویژن رہ چکے ہیں اور 1994 میں حکومتِ پاکستان سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہیں اور ڈاکٹر سلیم محمود کو 71 کی جنگ میں ریڈار ٹیکنالوجی کی مدد سے انڈین بحری جہازوں کو دھوکہ دے کر پاکستانی بحری جہازوں کو محفوظ رکھنے پر بحریہ کے اعزازی کمانڈر کا اعزاز دیا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر طارق کی یہ بات اس لئے بھی درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ بھارتی چندریان 3 کے تجربے کے بعد جب پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھارت کو مبارک باد دی گئی وہیں بہت سے لوگوں نے پاکستان اور اس کے ادارے سپارکو پر میمز کی شکل میں تنقید بھی شروع کر دی اور ساتھ ہی کچھ حقائق بھی ٹویٹ کئے۔

مثال کے طور پر سپارکو کے چیئرمین کی تعیناتی کس میرٹ پر کی جاتی ہے؟ آخر سپارکو چیئرمین کو متعلقہ شعبے سے متعلق علم ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ چیئرمین بن کر کیوں اور کیسے ادارہ چلا رہا ہے؟

زیادہ دور مت جائیں اور 2001 سے اب تک کی چیئرمین لسٹ دیکھ لیجئے۔ کہنے کو تو گذشتہ 15 سالوں سے ملک میں جمہوریت ہے مگر بیش تر اداروں کے سربراہان سویلینز نہیں رہے۔

میجر جنرل رضا حسین 2001 سے 2010 تک سپارکو کے چیئرمین رہے اور اس 10 سالہ دور میں انہوں نے سپارکو میں کیا کامیابی حاصل کی؟ آپ خود ریسرچ کیجئے۔ اس کے بعد 2010 سے 2016 تک میجر جنرل احمد بلال چیئرمین رہے اور پھر کیا کامیابی ہوئی؟ خیر 2016 سے 2018 تک میجر جنرل قیصر انیس خرم صاحب چیئرمین رہے اور 2018 سے اب تک میجر جنرل امر ندیم صاحب سپارکو کے چیئرمین ہیں۔

اس سے زیادہ تفصیل میں اس لئے نہیں جاؤں گا کیونکہ قوانین مسلسل پاس ہو رہے ہیں، سزائیں بڑھ چکی ہیں، ضمانتیں ملتی نہیں اور میرے پاس لاکھوں کروڑوں لگا کر ضمانتیں کروانے کے اخراجات نہیں ہیں۔ ایک لوئر مڈل کلاس صحافی ہونے کے ناطے میں صرف حقائق بتا سکتا ہوں، ان پر رائے دینے کی مجھے آزاد جمہوریہ پاکستان میں آزادی نہیں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@