Get Alerts

ڈاکٹر عبدالسلام تو پاکستان کے ہیرو ہیں

ڈاکٹر عبدالسلام تو پاکستان کے ہیرو ہیں
اردو کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ چاند کی طرف منہ کر کے تھوکیں تو تھوک اپنے منہ پر ہی آ گرتا ہے یعنی اگر کوئی چاند کو اپنے تھوک کا نشانہ بنانا چاہے تو اس کا تھوک چاند پر تو نہیں پہنچے گا بلکہ واپس اس کے منہ پر ہی آ گرے گا۔ اس مقولے کا مطلب مجھے کچھ دن قبل ایک واقعہ کو دیکھ کر سمجھ میں آیا۔ وہ واقعہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے نیشنل سائنس کالج کو باہر رونما ہوا۔ جہاں پہلے پاکستانی نوبیل انعام یافتہ، مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام ملنے کی 41 ویں سالگرہ کے موقعہ پر ان کی تصویر والے پوسٹر پر سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے شرپسند نوجوانوں کی جانب سے سیاہی پھینکی گئی۔

وہ شرپسند عناصر پاکستان کا نام بلند کرنے والے عظیم سائنسدان کی تصویر پر سیاہی پھینک کر ایسے خوش ہو رہے تھے گویا انہوں نے کوئی نئی چیز ایجاد کر کے دنیا کو دے دی ہو۔ اور وہ یہ سب کچھ صرف ان سے مذہبی اختلاف رکھنے کی وجہ سے کر رہے تھے۔  گویا سائنس اور علم کے میدان میں تو یہ انتہا پسند طبقہ ان کا مقابلہ نہ کر سکا،ہاں مگر جہالت میں یہ پہلے درجے پر ضرور فائز ہیں۔

اس نام نہاد یوتھ پارلیمنٹ نامی تنظیم کے صدرشہیر سیالوی کے مطابق انہیں اطلاع ملی تھی کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر علامہ اقبال اور ٹیپو سلطان کے برابر آویزاں کی گئی ہے۔ اور اس پر لوگوں کو اعتراض تھا،چنانچہ ان کی تصویر پر سیاہی اس لیۓ پھینکی گئی تاکہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان مخالف تھے اور انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف بھی بات کی تھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں ان موصوف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر صاحب مرحوم پاکستان مخالف تھے تو انہوں نے کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی بجائے فخر سے نوبیل انعام لیتے وقت پاکستانی قومی لباس یعنی شلوار قمیض،اچکن اور پگڑی کیوں زیب تن کی تھی؟ اگر وہ پاکستان مخالف تھے تو ضیا الحق نے ان سے پاکستان میں رہ کر حکومتی عہدہ  قبول کرنے کی درخواست کیوں کی تھی؟اگر وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے مخالف تھے تو بھٹو دور میں ڈاکٹر صاحب نے جوہری پروگرام کی ابتدا کیوں کی؟

اس وقت بھارت میں ہندو اکثریت میں اور مسلمان تھوڑی تعداد میں ہیں۔ اگر بھارت میں خدانخواستہ شہیر سیالوی کی تنظیم کی طرز پر موجود کوئی انتہاپسندوں اور جہلا کا ٹولہ وہاں کے مسلمان سائنسدان اور سابق صدر جناب ڈاکٹر عبدالکلام کی تصویر پر سیاہی پھینک کر یہ کہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مذہب یا عقیدہ یہ ہے اور یہ انڈیا مخالف ہیں اس لیۓ ہم نے ایسا کیا ہے۔ اس طرح کے واقعہ کے بعد امید یہی ہے کہ منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوف سیالوی صاحب یا ان کی تنظیم میں موجود انتہا پسند عناصر اس واقعہ کو تمام مسلم اُمّہ کے ساتھ ظلم اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم قرار دیں گے۔

یہ شرپسندوں کا ٹولہ اگر غور کرے تو یہ سیاہی انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پر نہیں بلکہ پاکستان میں علم اور پاکستان کے تشخص پر پھینکی ہے۔ان کو ابھی تک اتنا علم نہیں ہو سکا یا ان میں اتنی سمجھ نہیں کہ سوچ سکیں کہ اگر کوئی پاکستان کے لیۓ فخر کا باعث بنتا ہے اور اپنے علم سے پاکستان کا نام روشن کرتا ہے تو اس کا تعلق چاہے کسی بھی عقیدہ سے ہو وہ قابل تعریف ہے۔

اس موقع پر مجھے پیارے آقا حضرت محمد ص کے زمانہ کی ایک بات یاد آگئی۔آپ ﷺ نے کسی غزوہ میں جب دشمنوں کو قید کیا تو ان سے پوچھا گیا کہ ان میں سے جو پڑھے لکھے ہیں اور مسلمانوں کو تعلیم دے سکتے ہیں تو ان کو اس کے عوض رہا کر دیا جاۓ گا۔

اب ایک طرف تو پیارے آقا محمد ﷺ اس حد تک علم والے دشمن کے قدر کر رہے ہیں اور دوسری طرف یوتھ پارلیمنٹ نامی تنظیم کا انتہا پسند طبقہ ایک صاحب علم اور پہلے نوبیل انعام سے پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے والے کی تصویر پر سیاہی پھینک رہا ہے۔مگر یہ جاہل ٹولہ یہ بھول رہا ہے کہ سورج کو اپنی پھونکوں سے یہ کبھی نہیں بجھا سکتے۔

مشہور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہے کہ دنیا میں سائنسدان جب اپنے شعبوں میں کام کرتے ہیں تو وہ ایسا اپنے مذہبی عقیدہ کی بنا پر نہیں بلکہ سائنسی قابلیت کی بنا پر کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے حامی تھے اور سائنس دان کی حیثیت سے سیاست سے بہت دور رہتے تھے۔

میرے علم کے مطابق اس سارے واقعہ کے بعد کسی بھی نمایاں حکومتی یا اپوزیشن جماعت کے رہنما نے اس کی مذمت نہیں کی۔صرف وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی سائنسی کاوشوں کے بارے میں کچھ ٹویٹ کیا تھا۔آخر میں یہی کہوں گا کہ پاکستان کے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ابھی بھی مذہب اور عقیدے کے اختلافات  سے بالاتر ہو کر ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی اور ملکی خدمات کو سراہتے اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔بلاشبہ ڈاکٹر صاحب ایک عظیم سائنس دان اور پاکستان کے ہیرو ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔