پاکستان، ڈاکٹر عبدالسلام اور احمدی مسلک کا سوال

پاکستان، ڈاکٹر عبدالسلام اور احمدی مسلک کا سوال

(عثمان احمد)


سات ستمبر 1974 کو پاکستان کے قدامت پسند مذہبی طبقوں کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا جب دوسری آئینی ترمیم کی منظوری سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ اس تحریک کی قیادت کرنے والے شخص، وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے وہ لمحہ قابلِ فخر کامیابیوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے تھا ۔ترمیم کی منظوری کے بعد جب وہ پارلیمنٹ سے روانہ ہوئے تو خوشی سے سرشار عوام کے ہجوم نے اُن کا بطور ہیرو استقبال کیا۔ یہ عوام کو ایک مذہبی تنازع پر خوش کرتے ہوئے اپنا بچاؤ کرنے کی کوشش تھی۔ تاہم خوشی کے یہ لمحات بہت مختصر ثابت ہوئے اور بھٹو صاحب افسوس ناک انجا م سے دوچار ہوگئے ۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اُنھوں نے جن مذہبی عناصر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی، وہ ان کی جان کے درپے ہوگئے ۔ بعد میں وہی عناصر ضیا الحق، جنہوں نے بھٹو کا تختہ الٹا اور اُنہیں پھانسی پر چڑھایا، کے پیچھے کھڑے دکھائی دیے ۔ بھٹو کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد ضیا الحق ہیرو کی سند حامل قرار پائے ۔ اُنھوں نے اپنے پیش رو کے پاکستان کی انتہائی خطرناک مذہبی قوتوں کے ساتھ قائم کردہ الائنس کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اقتدار کا جواز فراہم کیا۔ ایک مرتبہ پھر احمدیوں کا سوال سامنے آیا۔ بھٹوصاحب نے احمدیوں کی مذہبی شناخت پر قانون بنا دیا تھا، لیکن ضیا نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فیصلہ کیا کہ اس قانون سازی کی زد میں آنے والی اقلیت کو کیسے حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قانون سازی کرتے ہوئے احمدیوں کو اذان دینے ، اسلامی زبان اور علامات استعمال کرنے اورایسے الفاظ کی ادائیگی سے روک دیاجس سے اُن کے مسلمان ہونے کا گمان ہوتا ہو۔ ایک نئی داستان رقم ہوچکی تھی ۔ پاکستان میں زیادہ تر ہیرو نفرت کی ٹکسال پر وجود میں آتے ہیں۔ تاریخ سے بیزاری ، اجتماعیت سے نفرت اور شخصی آزادیوں سے کدورت ہمار ے فکری عناصر کی اٹھان ہیں ۔ اگرچہ نہ تو بھٹو اور نہ ہی ضیا اپنے بلند وبالا مقاصد حاصل کرسکے ۔ اُنھوں نے دیدہ یا دانستہ پاکستان کو خودپارسائی کے زعم میں مبتلا خطرناک حد تک مضحکہ سوچ کے حوالے کردیا جس نے قوم کو مستقبل بنیادوں پرقدامت پسند اور بے لچک دینی سانچے میں ڈھالنے کا عمل شروع کردیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک احمدیوں کے خلاف جنگ کرنا اس ملک کے خمیر میں شامل ہوچکا ہے ۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور احمدی ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ احمدی نہ تو مکمل طور پر مسلمان ہیں اور نہ ہی محب وطن پاکستانی۔ ملک کے درودیوار پر اس نعرے کی گونج ثبت ہے ...’’جو قادیانیوں کا یار ہے وہ ملک کا غدار ہے‘‘ ۔ اسلامی پاکستان کے تصور کی بالا دستی احمدیوں اور ان کی جانوں کے لیے ایک فروغ پذیر خطرہ بن چکی ہے ۔ قومی زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ اس تصور کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے ۔ ایک اچھاپاکستانی اور ایک اچھا مسلمان وہی ہے جس کی نفرت کا پیمانہ احمدیوں کی نفرت سے لبریز ہے ۔ قابلِ قبول احمدی صرف وہی ہے جو اس تشخیص کے سامنے اپنے تشخص کو سرنگوں کردیتا ہے ۔ نفرت کے اس پنڈال میںآج کے ہیروز کو عظمت کے لیے اپنے دعوے کی سند دکھانا پڑتی ہے کہ وہ احمدیوں سے کتنی نفرت کرتا ہے ۔ چاہے وہ گاؤ ں کا کوئی مولوی ہو یا کوئی حاسد ہمسایہ، یا کوئی سرکاری افسر، یہ اصول مسلّم ہے کہ چونکہ احمدی برادری ملک کے لیے نقصان دہ ہے ، اس لیے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ جہاں بھی ملیں، اُن پر بھرپور ضرب لگائی جائے ۔ جذباتی کی کھولتی ہوئی جولانی ، جو ہمارے ہاں ایک معمول بن چکی ہے ، کا تازہ ترین اظہار کیپٹن محمد صفدر اعوان ، المعروف ’’پاکستان کے دامادِ اعظم ‘‘کی طرف سے کیا گیا ۔ تاہم اسمبلی کے فلور سے دھمکی آمیز خطاب کرتے ہوئے وہ مریم نوازشریف کے شوہر سے زیادہ اسلامی نظریات کے غیر متبدل سانچے میں ڈھلے جدید پاکستان کے فرزند دکھائی دیے ۔ اب ہوسکتا ہے کہ اس سپرمین کے اور بھی بہت سے دکھ ہوں۔ تاہم اُن کے اشتعال کا مرکز نوبل انعام یافتہ پروفیسر، ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ کیپٹن صفدر غصے نے شعلہ بار ہوتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ قائد اعظم یونیورسٹی کا فزکس ڈپارٹمنٹ اُس متنازع شخص سے منسوب کیوں کیا گیا ؟صفدر کی نگاہ میں ، اورایک سچے پاکستانی کے نزدیک ، ڈاکٹر عبدالسلام اپنی تر شخصی کامیابیوں اور صلاحیتوں کے باوجود ہمیشہ کے لیے معتوب قرار پاتے ہیں۔ تاہم صفدرو ہمنوا کا ہدف صرف ڈاکٹر سلام ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک تمام احمدی پاکستان، اس کے نظریے اور اس کے آئین کے دشمن ہیں، نیز احمدیوں کی تخلیق کے پیچھے برطانوی اور یہودی طاقتیں کارفرما تھے ۔کیپٹن صفدر احمدیوں کو پاک فوج میں بھرتی کرنے کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں...’’وہ جہاد پر یقین نہیں رکھتے ‘‘یہ وہی کٹرمذہبی ذہنیت ہے جو لکیر کے فقیر بنے رہنے کو عقیدے کی سربلندی سمجھتی ہے ۔ حتمی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کو عبدالسلام سے زیادہ کیپٹن صفدر جیسے ہیروز کی ضرورت ہے ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ صفدر کوئی نظریاتی انسان نہیں۔ ان کا مذہبی جوش ایک سیاسی ڈرامہ تھا جس کا مقصد اُن بہت سے بحرانوں سے توجہ ہٹانا تھا جن کا وہ اور اُن کی پارٹی شکار ہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر توجہ بٹانے کایہ ایک بدترین حربہ ہے کیونکہ ملک تو پہلے ہی احمدیوں کے خلاف نفرت سے لبریز ہے ، اور اس نفرت نے عوامی زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ کیپٹن صفدر اس مذموم منظر نامے پر ابھرنے والے نئے کپتان ہیں۔ احمدیوں سے ملک کو پاک کرنے کے عمل کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس نے ملک کو بہت سے شاندار افراد کی خدمات سے محروم کردیا۔ صفدر کا دعویٰ ہے کہ احمدی پاکستان کے دشمن ہیں، لیکن ایسا کہتے ہوئے وہ قیامِ پاکستان کے بہت سے حقائق کو روند رہے ہیں۔ انتہا پسند مذہبی طاقتیں، جو آج قوم کی مخافظ اور نظریے کی پاسبان بنی ہوئی ہیں، آزادی کی تحریک کے دنوں میں قیامِ پاکستان کی مخالف ہیں۔ ان کے برعکس احمدیوں نے مسلم لیگ کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کی ۔جب ہندوستان کے سیاسی منظر نامے سے مایوس ہوکر مسٹر جناح لندن واپس چلے گئے تویہ ایک احمدی مبلغ، عبدالرحیم درد تھے جنہوں نے اُنہیں وطن واپس آنے اور مسلمانوں کے موقف کے لیے لڑنے کے لیے راضی کیا تھا ۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ، چوہدری ظفراﷲ خان کو محمد علی جناح اپنا بیٹا قرار دیتے تھے ۔اُنھوں نے 1940 ء کی قرار دادِ پاکستان کا مسودہ ڈرافٹ کرکے شہرت حاصل کی ۔ وہ باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کے نمائندے تھے ۔ یہ ہیں پاکستان کے دشمن! احمدیوں کے خلاف نفرت کو قومی مقصد میں ڈھالنے کے لیے پہلے اُن کے عقائد کے بارے میں غلط تصورات پھیلائے گئے۔ آج ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلح افواج میں فرائض سرانجام دینے والے احمدی ملکی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ پاکستان کی تمام سرحدوں پر دشمن موجود ہیں، اس لیے صرف سچے پاکستانی ہی اس کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ چونکہ احمدی سچے مسلمان، چنانچہ سچے پاکستانی نہیں، اس لیے اُنہیں اس فرض کے لائق نہ سمجھا جائے ۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔ جب قومی زندگی خطرے سے دوچار ہو تو کسی ابہام کی گنجائش باقی نہیں ہوتی ۔ اس التباسی دروغ گوئی کے مقابلے میں سچ کچھ اور ہے ۔ پاکستان کے پہلے جنرل، جنہوں نے وطن کی خاطر میدانِ جنگ میں اپنی جان کی قربانی دی، ایک احمدی تھے۔۔۔ جنرل افتخار جنجوعہ۔ آج تک پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان دینے والے فوج کے سب سے سینئر افسر ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدعلی مالک ایک فوجی انجینئر افسر تھے جن کا 1965 ء میں چونڈے کے ٹینکوں کی جنگ میں بہت اہم کردار تھا۔ اسکواڈر ن لیڈر، خلیفہ منیر الدین شہید نے 1965 کی جنگ کے دوران جان کی قربانی دی۔ بے شمار احمدیوں میں سے چند ایک نام بطور مثال اُنہیں وطن کے غیور بیٹے اور محب وطن پاکستانی ثابت کرنے کے لیے کافی تھے لیکن چونکہ پاکستان میں تاریخ سے نفرت اور فسانہ گری پر یقین کیا جاتا ہے ، اس لیے ان عظیم ناموں کو بھلا دیا گیا ۔ ایک بار پھر ڈاکٹر عبدالسلام کی بات ہوجائے ۔ وہ ایسی شخصیت تھے جو ہمارے ہاں پائے جانے والے گہن زدہ تصورات سے بہت بلند تھے لیکن و ہ بھی ان آتشیں زنجیروں سے نہ بچ سکے کہ ایک احمدی ایک سچا پاکستانی ہوہی نہیں سکتا۔ ملک کو اُن پر ناز ہونا چاہیے تھا لیکن ، ملک کے رگ وپے میں ان سے نفرت کا زہر اتار دیا گیا ۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو اُس عظیم سائنسدان سے منسوب کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے دراصل اپنی عزت افزائی کی تھی ۔ اب اگر حکومت اس فیصلے کو واپس لیتی ہے تو اس سے ڈاکٹر عبدالسلام کا کچھ نہیں جائے گا، حکومت کی مزید بے توقیری ہوگی ۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے کتبے پر خالی جگہ پرکرنے کے لیے یہ خراج تحسین ضروری تھاتاکہ نہ صرف ڈاکٹر صاحب، بلکہ احمدیوں کے پاکستان کے ساتھ باقی رہ جانے والے تھوڑے بہت تعلق کو قائم رکھا جاسکے ۔ احمدیوں کے خلاف عشروں سے روا رکھی جانے والی نفرت نے بھی اُن کے دل میں موجود پاکستان سے محبت کو ختم نہیں کیا ہے ، اور نہ ہی وہ ملک سے ناراض ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام اس رویے کی علامت تھے ۔ تمام تر بدسلوکی کے باوجود اُنھوں نے پاکستانی شہریت ترک نہ کی ، حالانکہ بہت سی دولت مند اور پرکشش ریاستیں اُنہیں شہریت پیش کررہی تھیں۔ سائنسی کارناموں کے علاوہ بھی ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی جبرِ مسلسل کے باوجود پر عزم فتح کی علامت ہے ۔ یہی وہ عزم کا سرچشمہ ہے جہاں سے عظمت کے سوتے پھوٹتے ہیں،ا ور پاکستان کو اسی عزم کے حامل ڈاکٹر عبدالسلام اور بہت سے دیگر ہیروز کی ضرورت ہے ۔ لیکن جب قومی بیانیے کو فسانہ سازی کے ہاتھ رہن رکھ دیا جائے اور نفرت کے وائرس اس کی سوچ کو کنٹرول کرلیں تو پھر اس ملک کو ایسے ہیروز کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔