دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایل ڈی اے بھی اب فریق بن گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایل ڈی اے کے لیگل ایڈوائزر نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ہائیکورٹ نے پلاٹ ایکسچینج کر لیا ہے، اتنی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نہ کریں۔
اسی دوران ڈی ایچ اے کے وکیل نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ کل آپ نے آرمی افسر کے متلعق جو ریمارکس دیئے تھے انہیں حذف کر دیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں اگر کسی دکاندار سے جا کر جھگڑنا شروع کردوں، لوگ یہ کہیں گے کہ قاسم خان نہیں بلکہ چیف جسٹس نے جھگڑا کیا، 4 وکیل کسی رکشہ والے کیساتھ دنگا فساد کرتے ہیں تو نام کس پر آتا ہے؟ ہائیکورٹ کا جج اگر کسی ادارے میں بیٹھا ہے تو اس نے اپنا ڈیکورم برقرار رکھنا ہے۔ اسی طرح فوج کے حاضر سروس لوگ ڈی ایچ اے میں آ کر غلط کام کریں گے تو بدنام کون ہو گا؟
چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس ملک کےعوام کشمیر، سیاچن اور دیگر محازوں پر بیٹھے فوجی کا احترام اسکے ساتھیوں سے زیادہ کرتے ہیں۔ وہ ریمارکس جو میں نے کل دئیے بطور کلاس آرمی کیخلاف نہیں تھے، وہ ریمارکس آپ کے کچھ لوگوں کی وجہ سے تھے۔جسٹس قاسم خان نے کہا کہ میری جائیداد پر کوئی ناجائز قابض ہو جائے تو میں اسے بھی زور زبردستی نہیں نکال سکتا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 2007ء کے فیصلے میں ڈی ایچ اے کا زمین پر حق معطل ہو چکا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اقلیتوں کی وقف جائیدادیں بھی کھا گئے ہیں،یہ ایف اے ٹی ایف سے زیادہ بڑا ایشو بنے گا،اداروں کا احترام فوقیت ہے، عدالت کے ریمارکس کسی کا دل دکھانے کیلئے نہیں تھے۔ عدالت نے درخواست گزاروں کی زمین کی قانونی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا حکم دے دیا جبکہ ڈی ایچ اے انتظامیہ کو ہدایات لیکر حکم دیا کہ وہ 3 مئی کو پیش ہوں۔
گزشتہ روز کیس کی سماعت پر چیف جسٹس کے ریمارکس
گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے فوج سب سے بڑا قبضہ گروپ بن گئی ہے، کل کور کمانڈر اور ڈی ایچ اے کے سربراہ کو بلا لیتا ہوں۔ یہ معاملہ رسہ گیری کی قسم ہے، فوج کا کام قبضہ گیری ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے منہ سے فوج سے متعلق جملہ غلط نہیں نکلا، اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سچ بلوایا، آرمی کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنا رسہ گیری کی ایک قسم ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ اراضی سے متعلق مخالف فریق کا تعلق آرمی سے ہے اور وہاں سے جواب نہیں آتا اس پر چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ مجھے بطور جج11سال ہوگئے ہیں کسی کی جرات نہیں کہ آج تک مجھے جواب نہ جمع کروائے، مجھے جواب منگوانا آتا ہے اور یہ صرف دو دن کا کام ہے۔ معزز چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے بریگیڈیئر ستی کو فوری طلب کر لیا۔ چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ بریگیڈیئر ستی اپنے اسٹار اتار کر آئیں۔ اس بریگیڈیئر کو یہیں سے جیل بھجواؤں گا۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ آرمی کی وردی پہننے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کریں، جب دل کرتا ہے چار سپاہیوں کو لے جا کر اراضی پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ریٹائرڈ افسران کے لیے زیادہ ویلفیئر ہے پولیس کے لیے کیوں نہیں؟ کیا آرمی کے ساتھ پولیس ،ججز ،وکلا اور دیگر اداروں کی قربانیاں نہیں ہیں؟