یہ تو جہانگیر ترین بھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم احتساب پر لچک نہیں دکھا سکتے: گورنر سندھ عمران اسماعیل

یہ تو جہانگیر ترین بھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم احتساب پر لچک نہیں دکھا سکتے: گورنر سندھ عمران اسماعیل
گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ  جہانگیر ترین بھی جانتے ہیں کہ وزیراعظم احتساب پر لچک نہیں دکھا سکتے اور احتساب کا عمل کسی کیلئے تبدیل نہیں کریں گے۔ 

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم معیشت پر توجہ دے رہے ہیں، حفیظ شیخ نے معیشت میں اچھا کام کیا ہے، اور اب شوکت ترین مہنگائی کم کرنے پر توجہ دیں گے، ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے، معاشی حالات میں بہتری آرہی ہے، عمران خان نے زندگی بھر سخت سے سخت فیصلے کیے ہیں، انہیں مہنگائی کی سب سے زیادہ فکر ہے،

گورنر سندھ نے کہا کہ عمران خان انٹرنیشنل لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں، آنے والا وقت پاکستان اور قوم کے لئے بہتر ہونے والا ہے، پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے جانے پر اپوزیشن گھبرائی ہوئی ہے، ، اپوزیشن کے پاس کوئی بات نہیں تو مہنگائی کی بات کرتے ہیں۔عمران اسماعیل کا کہنا تھاکہ جہانگیر ترین وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں رہے ہیں، عمران خان ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرسکتے، اور جہانگیر ترین بھی پارٹی کا برا نہیں چاہتے،  وزیراعظم کو یقین ہے کہ جہانگیر ترین الزامات کا سامنا کریں گے، تحقیقات مکمل ہونے پر رپورٹ وزیراعظم کو پیش ہوگی۔ گورنرسندھ نے کہا کہ جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور وہ ان سے مطمئن ہیں، دعا ہے کہ جہانگیر ترین پر لگے الزامات غلط ثابت ہوں، جہانگیرترین بھی جانتےہیں وزیراعظم احتساب پرلچک نہیں دکھا سکتے اور احتساب کا عمل کسی کیلئے تبدیل نہیں کریں گے۔

احتساب کے عمل میں لچک کے بارے میں کس نے عمران خان کو استدعا کی؟

میڈیا رپورٹ کے  مطابق جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے ملاقات میں وزیر اعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے جہانگیرن ترین کے ہم خیال گروپ کی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا سے اتفاق نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اراکین سے کہا کہ مجھ سے امید رکھیں ہر صورت انصاف ہوگا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے شوگر کمیشن پر جاری تحقیقات پر کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میرا حکومت میں آنے کا مقصد نظام انصاف قائم کرنا ہے، جہانگیر ترین سمیت کوئی ذمہ دار نکلا تو قانون کے مطابق کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ ساری کارروائی بلاامتیاز ہو گی، اگر کسی کا خیال ہے کہ دباؤ میں آکر تحقیقات روک دوں گا تو وہ بڑی غلطی پر ہے۔

جہانگیر ترین کے خلاف کیا  کیس  بنایا گیاہے؟

ایف آئی اے نے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مبینہ مالیاتی فراڈ اور منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جہانگیر ترین نے سرکاری شیئر ہولڈرز کے پیسوں پر غبن کیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق فاروقی پلپ ملز جہانگیر ترین کے بیٹے اور قریبی رشتہ داروں کی ملکیت ہے۔ جہانگیر ترین کی کمپنی جے ڈی ڈبلیو نے دھوکے سے تین ارب 14 کروڑ روپے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ کو منتقل کیے ہیں۔  ایف آئی آر درج ہونے کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے لاہور کی سیشن عدالت سے عبوری ضمانتیں حاصل کی ہیں۔ عدالت میں جہانگیر ترین اور علی ترین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایف آئی اے نے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے درج کیے ہیں۔

 

جہانگیر  ترین اور عمران خان  کے درمیان تنازعہ  سیاسی نوعیت کا ہے؟

اکثر تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ تنازعہ سیاسی نوعیت کا ہے جس میں  وزیر اعظم کے نزدیک دیر سیاسی کھلاڑی شریک ہیں۔  ملک کے سینئر   صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ  کے مطابق  ترین کے دوستوں کا الزام ہے کہ عمران اور جہانگیر ترین میں غلط فہمیوں کا آغاز آئی بی کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین، سپیکر اسد قیصر، پرویز خٹک اور کچھ دوسرے وزرا نے ایک غیر رسمی اجلاس میں پارٹی لیڈر اور پالیسیوں کے خلاف گفتگو کی۔عمران کے قریبی حلقے میں یہ بات زیر گردش رہی مگر پھر دم توڑ گئی۔ بعد ازاں خان کے قریبی حلقے میں اسد عمر بھی شامل ہوگئے جو ترین کے خلاف پہلے سے ہیں۔ اس سے ترین مخالف حلقہ اور طاقتور ہو گیا۔خان اور ترین کے درمیان فاصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین میں بھی بن نہ سکی۔ اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔

دوسری طرف ترین نے بھی معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اور بامقصد منصوبہ بندی نہ کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم خان، ترین کی زراعت، آٹا اور چینی کے حوالے سے کارکردگی پر بھی ناراض ہیں جبکہ ترین کے ساتھی کہتے ہیں کہ اعظم خان انھیں کچھ کرنے ہی نہیں دیتے تو ان کی ذمہ داری کیسی؟