کوہسار مارکیٹ میں قاسم سوری پر حملے کی اصل روداد

کوہسار مارکیٹ میں قاسم سوری پر حملے کی اصل روداد
میں اپنے دوستوں کیساتھ ٹیبل ٹاک ریسٹورنٹ پر بیٹھا تھا۔ دو سفید ویگوگاڑیاں اور ایک لینڈ کروزرسے 15سے20لوگ اترے اور انھوں نے کیفےسٹریٹ ون کے باہر کارنر ٹیبل کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ یہ ویگو گاڑیاں کافی دیر سے کوہسار کی پارکنگ میں کھڑی کسی کا انتظار کر رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعدجب ایک لینڈ کروزر آئی تو وہاں سے اشارہ ملنےکے بعدحملہ آور حرکت میں آئے۔ اس ٹیبل پر قاسم سوری اپنےدوست خالد بھٹی اور عدیل مرزا کیساتھ بیٹھےتھے۔ خالد بھٹی اسلام آباد کے سب سے خوبصورت سیکٹر سی بارہ کے مالک اور قاسم سوری کےدوست ہیں۔ حملہ آوروں نے قاسم سوری کی ٹیبل پر پہنچتے ہی پی ٹی آئی مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ میں پہلے سمجھا ن لیگ کے لوگ ہیں، پھر لگا ٹی ایل پی ہے، یہ بھی لگا کہ اصل ویگو والے نہ ہوں اور پی ٹی آئی کو سبق سکھانا چاہتے ہوں۔

خیر نعروں کے چند ہی سیکنڈ کےبعد ان افراد نے ٹیبل پر پڑی چیزیں خالد بھٹی اور قاسم سوری کو مارنا شروع کر دیں۔ پھر ایک آدمی خالد بھٹی کی طرف لپکا اور دوسرے نے قاسم سوری پر حملہ کر دیا اوران کی گردن پر تھپڑ جڑ دیا۔ اسی اثناء میں دوسری ٹیبل پر بیٹھے ڈاکٹر عارف بھی لڑائی میں کود پڑے۔ ڈاکٹر عارف پی ٹی آئی کے پرانے ورکر اور بنی گالہ کے رہائشی ہیں۔ ڈاکٹر عارف اور شعیب نامی لڑکے نے جلدی سے قاسم سوری کو بچا کر ریسٹورنٹ کی بالائی منزل پر پہنچا دیا لیکن لڑائی جاری تھی ۔ قاسم سوری چند ہی سیکنڈ میں اوپر پہنچ گئےتھے۔ خالد بھٹی بڑھاپے میں بھی خوب دلیری سے لڑے اور ڈاکٹر عارف کی بہادری قابل دید تھی۔ اب حملہ آوروں کیساتھ لڑنے والے ڈاکٹر عارف،خالد بھٹی اور چند ویٹرز تھے ۔ویٹرز نے قاسم سوری اور ان کے ساتھیوں کو بچانے میں بہت اہم کردار ادا کیاورنہ حملہ آور تعداد میں زیادہ ہونے کے باعث زیادہ نقصان کرتے۔ اب ہاتھاپائی کے علاوہ ایک دوسرے پرکرسیوں سے بھی حملے ہورہے تھے۔

بیچ بچاؤ کروانےوالوں اور ویٹرزکے رش کی وجہ سے حملہ آور پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے۔ ویسے بھی اپنا کام کر چکےتھے۔جب حملہ آور پارکنگ میں اپنی گاڑیوں کے پاس پہنچے تو انھوں نے شاہ زین بگٹی زندہ باداور پی ٹی آئی مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کردئیے۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد میں قاسم سوری کے پاس اوپرگیا تو وہ صوفے پر بیٹھے تھے۔ احوال پوچھاتو انھوں نےکہا کہ خیریت سے ہوں، مجھےکچھ نہیں ہوا۔ پھر کہنے لگے کہ یہ سعودی عرب میں واقعہ کا ردعمل ہے۔

انھوں نے سعودی عرب میں واقعہ کو سراہنا چاہا تو میں نے فوراً کہا کہ جو وہاں ہوا وہ بھی غلط ہےجو یہاں ہوا یہ بھی غلط ہے۔پھر انھوں نے اپنی بات مکمل نہ کی۔( قاسم سوری سمیت سب کو پتہ تھا حملہ کرنے والے شاہ زین بگٹی کے آدمی تھے) ڈاکٹر عارف اور خالد بھٹ بھی بالائی فلور پر آگئے۔ڈاکٹر عارف کی دائیں آنکھ زخمی تھی اور بھٹی صاحب کی ناک۔ دونوں نے مارابھی اور مار بھی کھائی۔ کچھ دیرکے بعد میں نیچے آگیا۔اس کے بعد پولیس بھی وقوعہ پرپہنچ گئی۔ پولیس کو بیان ریکارڈ کروانے کےبعد قاسم سوری اور ان کے ساتھی چلے گئے۔ میں اور دوست سحری کے لئےوہیں رک گئے۔ابھی وہاں بیٹھے تھے تووہی حملہ آور ایک مرتبہ پھر گاڑیاں تبدیل کرکے آگئے۔ قاسم سوری پہلے ہی جاچکےتھے۔دوست نے فون کر کے قاسم سوری کو بتایا کہ حملہ آوردوبارہ آگئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ پولیس کو آگاہ کریں۔

تین اپریل کی آئین شکنی الگ معاملہ ہے۔ قاسم سوری پی ٹی آئی کے متکبر رہنماؤں کے برعکس عاجزی و انکساری کی حامل اچھی شخصیت کے مالک ہیں۔

مصنف صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔