کراچی حسن کالونی کے ایک چھوٹے سے مکان کی دوسری منزل پر ستر سالہ نسیم ناہید تین چھوٹی چھوٹی بچیوں کو لیے بیٹھی ہیں۔ یہ نعمان علی کی بیٹیاں ہیں۔ ان بیٹیوں کے سر سے باپ کا سایہ اس دن چھن گیا جب 2 اگست 2015 کو رینجرز اہلکار ان کے والد کو اٹھا کر لے گئے۔ اب نعمان کی والدہ، اہلیہ اور بیٹیاں ایک عجیب تذبذب میں مبتلا ہیں۔ کیا سات سال پہلے جبری طور پر لاپتہ ہونے والا ان کا لختِ جگر اب کبھی واپس آئے گا؟
ان کی والدہ نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’نعمان بہت منتوں مرادوں کا بیٹا ہے۔ وہ پانچ بہنوں کا ایسا اکلوتا بھائی ہے جو بہت نازوں کا پلا ہے۔ وہ مجلس کے لئے باب العلم امام بارگاہ گیا تھا۔ باہر بیٹھا تھا کہ لوگوں نے بتایا کہ رینجرز اور سادہ لباس میں اہلکار آئے اور اس کو اٹھا کر لے گئے۔ اس دن سے اب تک اس کا کچھ معلوم نہیں۔ میں اس کی غیر موجودگی میں سخت بیمار رہنے لگی ہوں۔ اس کی جدائی میں مجھ سے کھانے کا ایک نوالہ نہیں نگلا جاتا۔ کیا سات سال کم ہوتے ہیں؟ یہ کوئی ایک ماں سے پوچھے۔‘
39 سالہ نعمان ایک محنت کش طبقے کے علاقے حسن کالونی میں رہائش پذیر تھے جہاں قریب میں ہی وہ ایک مطب میں نوکری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ان کی بہن ثمرین ناہید نے بتایا کہ وہ شہدائے ملتِ جعفریہ کے خانوادوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور چندہ جمع کر کے ان کے گھر راشن پہنچایا کرتے تھے۔
’یہی اس کا جرم تھا کہ وہ شہدا اور اسیروں کے خاندان کا خیال رکھا کرتا تھا۔ ان کی داد رسی کرتا تھا۔ وہ ایران سے چند دن ہی ہوئے کہ آیا تھا۔ اور پھر امام بارگاہ کے باہر سے اٹھا لیا گیا۔‘
ثمرین نے مزید بتایا کہ حساس ادارے کے اہلکار ان کے گھر آیا کرتے تھے اور پوچھ گچھ کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ نعمان جب اٹھارہ سال کے بھی نہیں تھے تب ان پر ایک مقدمہ چلایا گیا تھا جس سے وہ با عزت بری بھی ہو گئے تھے۔
’اگر اس نے کوئی جرم کیا بھی ہے تو ہمارے ملک میں عدالتیں موجود ہیں۔ میرے بوڑھے ماں باپ کو ہی کم از کم اس کی شکل دکھا دی جائے تاکہ انہیں یہ سکون ہو جائے کہ وہ اس دنیا میں موجود ہے۔‘
نسیم ناہید نے مزید بتایا کہ ان کے شوہر شدید بیمار رہتے ہیں اور صرف بیٹیوں کا ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ عدالتوں کے چکر نہیں کاٹ پائیں ورنہ وہ ہر قانونی چارہ جوئی کرتیں جس سے ان کا بیٹا واپس آ سکتا۔
’بیٹیوں کا گھر ہے۔ کون پٹیشن کروا کر لاکھوں روپے دیتا اور کوششیں کرتا۔ میں بالکل ٹوٹ چکی ہوں۔ اگر زندہ ہوں تو صرف ان بچیوں کے لئے اور اس امید کے ساتھ کہ شاید وہ واپس آ جائے۔‘
قابلِ ذکر ہے کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ پاکستان میں ایک عرصے سے جاری ہے اور اس پر قانون سازی کی کوششیں بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شیعہ اکابرین کا کہنا ہے کہ پورے ملک سے 30 سے زائد شیعہ عزادار جبری طور پر لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لئے وہ متواتر احتجاج اور دھرنے دیتے رہے ہیں لیکن ہر بار ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔
نعمان کی بڑی ہمشیرہ زرین ناہید کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے یہ کہتے ہیں کہ وہ ان افراد کو نہیں چھوڑٰیں گے جو شام جا کر زینبیوں میں شامل ہوئے۔ واضح رہے کہ زینبیوں عسکری دستہ شام میں شیعہ حضرات کی ایک ایسی فوج ہے جو داعش سے بر سرپیکار رہی ہے اور شام میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت پر مامور ہے۔
لیکن نعمان کی بہنوں اور ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ نعمان تو کبھی شام گیا ہی نہیں اور ایران بھی زیارتوں کی غرض سے صرف 15 دن کے لئے گیا جس کی تصدیق ریاستی ادارے با آسانی کر سکتے ہیں۔
’نعمان کی سب سے چھوٹی بیٹی اس کے اغوا ہونے کے بعد پیدا ہوئی۔ باپ بیٹی نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے۔ کیا ہمارے ملک میں عدالتیں نہیں ہیں جو ہم یہ ناانصافی جھیل رہے ہیں؟‘
ثمرین کا کہنا تھا کہ اب وہ اور نعمان کی اہلیہ گھر سے روزگار کے لئے نکلتی ہیں اور والدین کا خیال رکھتی ہیں۔ ’اگر نعمان ہوتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔ وہ بہت خیال رکھنے والا بھائی اور بیٹا تھا۔ ریاست نے ہمارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔ میں ریاستی ادارو سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر میرے بھائی کا قصور کیا ہے جو اس کو سات سال سے غائب کر رکھا ہے؟‘