Get Alerts

اپنے گھر سے دور منانی پڑے تو میٹھی عید بھی پھیکی ہو جاتی ہے

کچھ لوگ ایسے بدقسمت بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ یہ مواقع میسر نہیں کرتا اور وہ ان تہواروں کو بھی اپنوں سے دور مناتے ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ خواہش نہیں ہوتی مگر مجبوری آڑے آ جاتی ہے۔ اب وہ کس طرح یہ دن مناتے ہیں اس کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کرب سے گزرتے ہیں۔

اپنے گھر سے دور منانی پڑے تو میٹھی عید بھی پھیکی ہو جاتی ہے

سال میں چھوٹی عید اور عید قربان مسلمانوں کے لئے وہ دو تہوار ہیں جن کے لئے ہر کوئی انتظار کرتا ہے۔ چھوٹی عید کو سویوں کی عید اور میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے بعد مسلمان انعام کے طور پر اس عید پر خوشی مناتے ہیں جبکہ عید قربان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فلسفے کی یاد دلاتی ہے جس میں عظیم قربانی کو تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔ یہ دونوں تہوار مسلمانوں کے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اگر پورے سال گھر سے دور رہے ہیں تو ان دو تہواروں کے دن ضرور گھر میں موجود ہوں اور اپنوں کے درمیان یہ دن منائیں۔ اس دن سب گھر والے مل بیٹھ کر لطف اٹھاتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں اور اپنوں اور رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں کیونکہ آج کے مصروف دور میں رشتہ داروں کے ہاں جانے کے لئے صرف تہوار ہی رہ گئے ہیں یا پھر شادی بیاہ اور غم کے واقعات میں جایا جاتا ہے۔

جس طرح باقی مذاہب کے لوگ اپنے مذہبی تہواروں کے لئے اپنے گھروں اور ممالک کا رُخ کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح اپنے مذہبی تہواروں کو اپنے گھروں میں اور وطن میں منائیں اسی طرح مسلمان بھی گھروں سے دور رہ کر چھوٹی عید اور بڑی عید کے لئے اپنی چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے وہ عید منانے آتے ہیں جس کے لئے وہ مہنگے داموں ٹکٹ خریدنے سے بھی احتراز نہیں کرتے بلکہ بیرون ملک میں ملازمت کرنے والے ایک دو مہینے پہلے سے ہی ٹکٹ بک کروا لیتے ہیں اور اسی طرح وطن عزیز کے دوسرے شہروں میں کام کرنے والے افراد بھی عید سے چند دن پہلے اپنے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ مگر کچھ لوگ اپنے ملک میں رہ کر بھی عید کی چھٹیوں پر گھر عید منانے نہیں جا سکتے جن کی مجبوری ہوتی ہے یا تو وہ پولیس میں ہوتے ہیں یا پھر سکیورٹی اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے بدقسمت بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ یہ مواقع میسر نہیں کرتا اور وہ ان تہواروں کو بھی اپنوں سے دور مناتے ہیں۔ اگرچہ ان کی یہ خواہش نہیں ہوتی مگر مجبوری آڑے آ جاتی ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ اب وہ کس طرح یہ دن مناتے ہیں اس کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کرب سے گزرتے ہیں۔ آج کل تو تھوڑا بہت آسان ہو گیا ہے، ٹیکنالوجی نے اتنی آسانی پیدا کر دی ہے کہ لوگ اپنوں سے ویڈیو کالز پر بات کر لیتے ہیں اور انہیں اس طرح کمی کا احساس نہیں ہوتا جس طرح ایک دہائی پہلے ہوا کرتا تھا جب ٹیکنالوجی اتنی فاسٹ نہیں تھی۔ اس طرح دو عیدیں مجھے بھی باہر گزارنے کا موقع ملا تھا اور دونوں عیدوں کا کرب اب بھی میں محسوس کرتا ہوں تو ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اور وہ درد محسوس کرسکتا ہوں کہ باہر جو لوگ عید گزارتے ہیں اُن کی عید کے دن کیا روٹین ہوتی ہے۔

پہلی دفعہ جب 2007 میں وزٹ ویزہ پر دبئی گیا جہاں مجھے رمضان المبارک کے ساتھ ساتھ عید کا دن بھی منانا پڑا تھا۔ رمضان المبارک میں جو افطاری کا مزہ گھر میں اور اپنے گاؤں یا ملک میں ہوتا ہے وہ پردیس میں کہاں ہوتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں جب ایک ایک کر کے ڈیرے سے سب لوگ گھر جانے لگے تو احساس ہونے لگا کہ عید کیسے ہو گی اور جب ستائیسویں شب آئی تو ڈیرے میں چند ہی افراد رہ گئے تھے جن کو چھٹیاں نہیں ملی تھیں۔ ورنہ انہوں نے اپنی طرف سے مکمل کوشش کی تھی کہ وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ عید منائیں۔ پھر جیسے تیسے عید کا دن آیا۔ اسی طرح کپڑے پہنے گئے۔ تیاری اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی گھر میں ہوا کرتی تھی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

صبح کے ناشتے کے بعد عید گاہ جانا ہوا۔ عید گاہ کیا تھی بڑی جامعہ مسجد تھی جہاں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا۔ عید کا خطبہ چونکہ عربی میں تھا تو ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ مولوی صاحب کیا فرما رہے ہیں مگر ہمیں اتنا معلوم ہو رہا تھا کہ ہماری عید گاہ کے خطیب کی طرح مولوی صاحب اسلام کے اصول اور مسلمانوں کے کارنامے ہی بیان کر رہے ہیں اور آخر میں وہ مسلمانوں کے اتفاق میں رہنے پر زور دے رہے تھے۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد سوچ رہے تھے کہ اب کوئی گلے لگائے گا، عید مبارک کہے گا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ سب اپنوں سے گلے لگ کر عید مبارک کہہ رہے تھے اور ہم اپنے تین چار افراد کو ڈھونڈ رہے تھے جن کے ساتھ ہم نماز پڑھنے آئے تھے۔ ان سے گلے لگ کر واپسی کی راہ لی۔ چائے پی کر منہ مٹھائی سے میٹھا کیا اور پھر میں نے دیکھا کہ کمرے میں رہائش پذیر دوستوں نے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے ٹراؤزر پہنے۔ ایئر کنڈیشنر کو آن کرتے ہوئے اپنے گھروالوں کو فون کیا اور دو منٹ کے فون کے بعد انہوں نے کمبل میں سر ڈھانپ لیے۔

یہ پردیس میں پہلی عید رہی جس کے بعد میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے میرے رب کبھی دوبارہ ایسی عید سے مجھے ہم کنار نہ کرنا جس میں وہ چاشنی نہ ہو جو گھر والوں اور گاؤں میں ہوتی ہے۔ جس میں رشتہ داروں کے گھر جایا جاتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی ہیں اور عید کے مزے لوٹے جاتے ہیں۔ دعا کامیاب ہوئی اور ہم نے اس کے بعد کی چھوٹی عید گاؤں میں ہی منائی۔

اسی طرح پھر 2016 میں ایک تربیت کے سلسلے میں سری لنکا جانا پڑ گیا جہاں عید قربان آ گئی اور یہ ہماری دوسری عید تھی جو ملک سے باہر منانی پڑ رہی تھی۔ سری لنکا میں گرچہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے مگر عید قربان سری لنکا میں منانے کا تجربہ بہت ہی عجیب رہا۔ عید سے دو دن پہلے مسجد ڈھونڈنی پڑی کہ جہاں عید کی نماز پڑھنی مقصود تھی۔ تربیت سے چھٹی تھی مگر دوستوں نے ٹرینرز سے کہا تھا کہ ہم چھٹی نہیں کرنا چاہتے، ہم اس دن بھی کلاسز لیتے ہیں حالانکہ 25 بندوں کی کلاس میں ہم دو مسلمان تھے۔ فاروق جو کہ انڈیا سے تھا وہ بھی میرے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ ہم دونوں نے مسجد میں نماز پڑھی۔ وہاں ہم دونوں کو عجیب سا لگ رہا تھا۔ مولوی صاحب سنگالی زبان میں قربانی کے فضائل اور اس واقعے کی تفصیل بیان کر رہے تھے جو ہم اپنے علاقے میں مولوی صاحبان سے سنتے آئے تھے۔

نماز پڑھنے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے ملے اور مسجد سے باہر نکل آئے۔ کوئی قربانی شربانی نہیں کی۔ گھر کال کی، وہاں عید کا حال دیکھا اور اپنی کہانی سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کہ ہماری عجیب طریقے سے عید گزری جس میں صرف ایک بندے سے گلے ملا گیا حالانکہ اپنے علاقے میں گلے مل مل کر تھک جاتے تھے اور پھر راہ تبدیل کرتے تھے کہ مزید کوئی گلے نہ لگائے مگر یہاں ہم گلے لگنے کے لئے ترس رہے تھے۔ اس عید پر بھی اللہ سے دعا رہی کہ اللہ کبھی ایسی عید پردیس میں نہ آئے جس میں عید قربان کے بعد باربی کیو پارٹی، تکہ پارٹی وغیرہ نہ ہو۔ گوشت کے انواع و اقسام کے پکوان نہ ہوں۔ جس کے بعد ابھی تک اللہ کے فضل سے عید قربان بھی اپنے ملک میں منائی جا رہی ہے اور دعا ہے کہ سب مسافروں کو اللہ ان دونوں تہواروں کو اپنے ملک، اپنے گاؤں اور شہروں میں اپنوں، رشتہ داروں کے ہاں عید منانے کی توفیق دے کیونکہ باہر پردیس کی میٹھی عید بھی پھیکی عید ہوتی ہے اور عید قربان کی نمکین عید بھی بے مزہ لگتی ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔