Get Alerts

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کردی

ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کردی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان  کی سزا معطل کردی۔

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد پیر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنایا گیا فیصلہ معطل کردیا اور عمران خان کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہونے کی صورت میں بھی اٹک جیل سے فوری رہا نہیں ہوسکیں گے کیونکہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمے میں بھی باقاعدہ گرفتار ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو رہائی کے لیے سائفر کنٹینٹ لیک مقدمے میں بھی ضمانت کرانا پڑے گی۔ ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ کی تفتیشی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی کو باقائدہ طور پر شامل تفتیش بھی کررکھا ہے۔ تفتیشی ٹیم چند دن قبل بھی اٹک جیل جاکر چیرمین پی ٹی آئی سے تفتیش کرچکی ہے۔

ایف آئی اےانسداد دہشت گردی ونگ میں چیرمین پی ٹی آئی اور وائس چیرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کے خلاف براہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔ مقدمے میں سابق سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر اور سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے کردار کا تعین تفتیش میں کرنے کا تحریر کر رکھا ہے۔

اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں ’کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب‘ قرار دیتے ہوئے اُنہیں تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملاقات والی درخواست پر آرڈر کردیں اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ امید ہے آج ویسے ہی سزا معطلی کی درخواست طے ہوجائے گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ کیس میں پبلک پراسیکیوٹر کو بھی پہلے نوٹس کیا جانا ضروری ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شکایت تو الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی ریاست نے نہیں۔ٹرائل کورٹ میں آپ نے یہ بات نہیں کی آج آپ پہلی بار یہ بات کہہ رہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھارتی سیاست دان راہول گاندھی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں راہول گاندھی کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ کیس میں دو سال کی قید تھی۔راہول گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔

امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ ضابطہ فوج داری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں۔ استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے۔ ریاست کو نوٹس جاری کیے بغیر اور موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے۔ راہول گاندھی کیس میں فیصلہ ہوا تھا کہ پبلک پراسیکیوٹر کو سننا ہے یا نہیں۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ظہور الہٰی کیس کا بھی حوالہ دیا گیا۔ امجد پرویز نے کہا کہ میں ابھی ان کی سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر ہی نہیں رہا میں تو ابھی صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس طرف جانے سے پہلے پبلک پراسیکیوٹر کو نوٹس کیا جانا لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کم از کم سزا ایک سال جبکہ بھارت میں کم سے کم سزا تین سال ہے۔ سزاؤں کے حوالے سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور عدالت سے پبلک پراسیکیوٹر کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کردی۔امجد پرویز نے کہا کہ ہمارے ہاں قانون ہے کہ ایک سال کی سزا ہو تو سزا سنانے والی عدالت فوری اسے معطل کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کیسز میں کمپلیننٹ کو کبھی پارٹی نہیں بنایا جاتا۔ نیب کے قانون میں پراسیکیوٹر کی تعریف کی گئی ہے۔ نیب کیس میں سٹیٹ آتی ہی نہیں ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کو سنا جاتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نیب کو سنے بغیر کوئی آرڈر کیا جائے۔ فوج داری کیس میں سٹیٹ کو نوٹس ہونا ضرورت ہے۔ قانون میں شکایت کنندہ کا لفظ ہی نہیں ہے۔ سٹیٹ کا ذکر ہے۔

امجد پرویز نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل میں اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب دیے اور سٹیٹ کو نوٹس کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے انہیں دلائل آگے بڑھانے کی ہدایت کردی۔

امجد پرویز نے کہا کہ اپیل کنندہ نے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ سیشن کورٹ ٹرائل کی مجاز نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرائل سیشن کورٹ کو ہی کرنا ہے مگر کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا۔کرپٹ پریکٹسز کے خلاف اِس قانون کے تحت تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں، اگر مجسٹریٹ کی سکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت کو ہی کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجسٹریٹ کو طے کرنا ہے کہ سیشن عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں؟ 

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔