طاغوتی طاقتوں کیساتھ جمہوریت پر سمجھوتہ نہ کرنا بینظیر کی شہادت کا بنیادی پیغام ہے

27 دسمبر بی بی بینظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح بینظیر بھٹو نے ہر قسم کے خطرات کے باوجود ایک پُر خطر راستہ چنا اور شعوری طور پر زندگی کے مقابلہ میں شہادت کو ترجیح دی۔ زندگی ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنے زندگی لوگوں کی بھلائی اور فلاح کیلئے وقف کر دی ہو وہ موت سے نہیں ڈرتے۔

یہ بات تاریخ کے ہر طالبعلم کو معلوم ہے کہ بینظیر کا سیاست میں آنا کسی منصوبہ کے تحت نہیں تھا۔ یہ اس ظلم و جبر کا نتیجہ تھا جس میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے بنائے فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل قتل کر دیا۔ ان بحرانی حالات میں بینظیر بھٹو کو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے ظلم اور جبر کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بینظیر کے دونوں بھائی ملک سے باہر تھے اور بینظیر کو پہلے سے سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ اس کے باوجود بینظیر نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاست اور مزاہمت کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کر دیا۔

فوجی ڈکٹیٹر کا دل پتھر کا ہوتا ہے، لہذا اس نے اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لئے بینظیر کو قید کر لیا اور اس کو توڑنے کے لئے طرح طرح کے اذیتیں دیں۔ مگر بینظیر نے ڈٹ کر ان حالات کا مقابلہ کیا۔ آخرکار فوجی ڈکٹیٹر نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی کہ بینظیر اور اس کی والدہ نصرت بھٹو کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بینظیر نے باہر جا کر بھی اپنا مشن نہیں چھوڑا اور پاکستان میں فوجی حکومت اور ملڑی ڈکٹیٹرز کے خلاف اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی لئے جدوجہد جارِی رکھی۔ جب بینظیر بھٹو ایک طویل جلا وطنی کے بعد وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں لاہور واپس آئیں تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔

1988 میں ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق، وزیراعظم محمد خان جونیجو سے تنگ آ چکا تھا اور اس نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو ڈسمس کر دیا۔ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ضیا الحق کئی جرنیلوں کے ساتھ فضاِئی حادثہ میں مارے گئے۔ 1988 کے پارٹی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں بینظیر پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں۔ جمہوریت دشمن قوتوں کو بینظیر بالکل پسند نہ تھیں، لہذا چند ماہ بعد ہی اس کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ ایک دفعہ پھر جب نادیدہ طاقتیں نواز شریف سے تنگ آگئیں تو بینظیر کو دوبارہ وزیراعظم بنا دیا گیا۔

پھر ایک دفعہ بینظیر کی حکومت کو ختم کر کے نواز شریف کو واپس لایا گیا اور آخرکار ملک میں ایک دفعہ پھر فوج کی سربراہ جنرل مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کو ختم کر کے مارشل لا لگا دیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے سربراہ ملک سے باہر جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔

آخرکار جنرل مشرف نے پی پی کے ساتھ این آر او کر لیا۔ جنرل مشرف ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ بینظیر ملک میں واپس آئیں۔ بینظیر کو پیغام پہنچایا گیا کہ اگر وہ واپس آئیں تو ان کی جان کو خطرہ ہے مگر ہم نے دیکھا کہ بینظیر ان تمام خطرات کے باوجود ملک واپس آئیں۔ بینظیر کو ڈرانے کے لئے کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ کروایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ بینظیر چند دنوں کے لئے ملک سے باہر گئیں مگر موت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک میں واپس آگئیں۔ انہیں علم تھا کہ ان کو قتل کر دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا 27 دسمبر کو جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کر کے واپس آرہی تھیں تو انہیں شہید کر دیا گیا۔

ان کی اس قربانی نے پاکستان میں جمہوریت بحال کروانے میں بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ ان ساری باتوں کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں ہر وقت جمہوریت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بی بی کی شہادت کا یہ پیغام ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں ملک میں اصلی جمہوریت کے قیام کے لئے اکھٹی ہو جائیں اور کسی بھی قیمت پر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق پر سمجھوتہ نہ کریں۔