کیمپ جیل کا ایک دلفریب منظر اور عثمان بزدار کے چہرے کی ہوائیاں

کیمپ جیل کا ایک دلفریب منظر اور عثمان بزدار کے چہرے کی ہوائیاں
یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری کو نیب نے پکڑ لیا تھا اور وہ جیل میں بند تھے، ان کی مدد کے لئے مجھے کیمپ جیل میں بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل تعینات ایک دوست سے ملنے جانا پڑا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں دوست جیل افسر سے ملاقات میں مدعا بیان کیا تو اس نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ان کا خیال رکھیں گے۔

دوست جیل افسر نے مجھے وہیں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھ کر ذرا انتظار کرنے کا کہہ کر خود مذکورہ قیدی کو ملاقات کے لئے بلانے کی غرض سے اندر چلا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں شیشے کی دیواروں والے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں کچھ لوگ میز کے اردگرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اس لئے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں جا کر بیٹھنا مجھے مناسب نہ لگا اور انتظار کے لئے سپرنٹنڈنٹ آفس میں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے کے باہر ہی رک گیا۔ سپرنٹنڈنٹ آفس میں پیچھے کی طرف 2 اور کمرے نظر آ رہے تھے جو وی آئی پی ملاقاتوں کے لئے مخصوص تھے۔

ان میں سے ایک کمرہ اہم قیدی شخصیات کی اپنی فیملی کے ساتھ ملاقات کے لئے تھا جس میں ملاقات کے لئے آنے والے خاندان کے افراد کو بٹھایا جاتا تھا جبکہ پہلے کمرے سے گزر کر وی آئی پی قیدی کو لایا جاتا اور پھر وہیں سے گزار کر واپس اندر بھیج دیا جاتا۔ اسی پہلے وی آئی پی روم پر میری نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسلم لیگ (نواز) کے جیل میں قید رہنما خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، حنیف عباسی جبکہ ان سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے نون لیگی رہنما ایاز صادق، رانا تنویر اور حافظ نعمان سمیت مسلم لیگ (ن) کے تمام قیدی و ملاقاتی لیڈرز نہایت مؤدب ہو کر درمیان والی کرسی پر بیٹھے شخص کی بات بڑے دھیان سے سن رہے ہیں۔

نون لیگ کے تمام قیدی نہائے دھوئے، نہایت خوش لباس اور فریش نظر آ رہے تھے۔ میرا یہ تجسس فطری تھا کہ دیکھوں آخر یہ کون ہے جس کے سامنے نون لیگ کے اتنے بڑے بڑے لیڈرز اس قدر مؤدب ہو کر بیٹھے اور اتنی توجہ سے اسے سن رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے ذرا قریب جا کر اندر جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں، وہ کوئی اور نہیں، معروف صحافی اور ٹی وی اینکر حامد میر تھے، جن کے گرد مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت حلقہ بنائے ہمہ تن گوش تھی۔

اس دلچسپ منظر کا آنکھوں دیکھا حال ایک عینی شاہد یعنی میرے ایک دوست نے کل ہی خود مجھے سنایا جس سے عرصہ بعد ملاقات ہوئی تھی۔

ایک اور ذاتی دوست نے گذشتہ رات حال ہی میں آنکھوں دیکھے ایک اور دلچسپ منظر کا احوال سنایا، جو ایک بڑے میڈیا گروپ کے اردو اخبار میں میرا کولیگ رہا ہے اور آج کل ایک لیڈنگ نیوز چینل میں ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ اس سے بھی گذشتہ رات کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ بطور رپورٹر کرکٹ کے ایک قومی کھلاڑی سے خاصی پرانی آشنائی رکھتا ہے، جو آج کل ہمارا وزیراعظم ہے، وہ کہتا ہے کہ وزیراعظم نے لاہور کے اپنے ایک حالیہ دورے میں ملاقات کے لئے یاد کیا اور کچھ دیر تنہائی میں نجی گپ شپ کے بعد عثمان بزدار کو بھی اندر بلا لیا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا یہ میرا چیتا ہے، اس کا خیال کرنا ہے۔

خان صاحب جانے کے لئے اٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ ہی باہر نکل آیا اور جانے لگا تو بزدار صاحب مجھے رکنے کے لیے کہتے ہوئے بولے آپ سے ڈیٹیل میں میٹنگ کرنی ہے۔ میں نے ان سے کہا میں صرف 2 حرفی بات کہوں گا۔ یہ (خان) صرف 1 سال میں چیتے سے گیدڑ بنا دیتا ہے۔ اس پر عثمان بزدار کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ میں نے کہا میں اسے 32 سال سے جانتا ہوں، اس نے مجھے بھی کہا تھا کہ آجاؤ میرے ساتھ کام کرو، اگر میں نے اسے جوائن کر لیا ہوتا تو سال بعد ہی مجھے اگنور کر کے پرے پھینک چکا ہوتا۔ اور یہ کہہ کر میں کپتان کے چیتے کو سکتے کی سی حالت میں چھوڑ کے چلا آیا، جس کا چہرہ ایک ایسے سہمے ہوئے قیدی کا چہرہ لگ رہا تھا جسے کسی بھی وقت رہائی کی سزا کا خوف لاحق ہو گیا ہو۔