علی سجاد شاہ جو سوشل میڈیا پر ابوعلیحہ کے نام سے متعارف ہیں، ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر صحافت سے وابستہ علی بلاگر، اینکر، کامیڈی سکرپٹ رائٹر، فلم رائٹر و ڈایریکٹر تو تھے ہی، اب ’میں خمیازہ ساحل کا‘ کے ذریعے انہوں نے اردو افسانے کی پرخار وادی میں بھی قدم رکھ دیے ہیں۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ان کے کچھ افسانوں اور ایک طویل ناولٹ کے علاوہ ان کی کچھ ذاتی تحریروں پر مشتمل ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر بھرپور پذیرائی حاصل کی تھی۔ علی ایک طویل عرصہ، 271 دن قومی سلامتی کے اداروں کی تحویل میں رہے تھے جس کے بعد ان کو مکمل کلئیر قرار دے دیا گیا تھا۔ دوران تحویل، علی کے مطابق، ان پر کوئی جسمانی تشدد نہیں ہوا بلکہ تین وقت اچھا کھانا بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ اس دوران ان کی آنکھوں پر البتہ پٹی بندھی رہی تھی۔ اس قید نے ان کی ذات اور شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے جس کا واضح اثر ان افسانوں میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کتاب کے عنوان پر مبنی افسانہ ’میں خمیازہ ساحل کا‘ ان کے اس جذباتی جوار بھاٹا کی نمائندگی کرتا ہے جو تحویل سے رہائی کے بعد ان کی پرانی محبت سے آشنائی کی آس کے ٹوٹنے جڑنے پر محیط ہے۔ اس رومانوی کشمکش کے مد و جزر بڑی خوبصورتی سے افسانے کے کینوس میں پروئے گئے ہیں۔ علی ایک بے باک فنکار ہے جس کی تحریر میں تخلیق کا فن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ سادے سے واقعے سے آغاز کرتا ہے اور اس کے تصوراتی تانے بانے اس مہارت سے بنتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ افسانے ’پوری غیرت والا‘ اور ’پکوڑوں والی کڑاہی‘ بظاہر جنسی خواہشات کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے ہیں لیکن ان میں موجود جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا کرب قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ ’پوری غیرت والا‘ کا اختتام ایک المیہ ڈرامائی داستان لگتا ہے جس میں انسان کی مثبت جبلت ایسے وقت میں انتقامی جبلت پر غالب آتی ہے جب کوئی اس کی توقع نہیں کر رہا ہوتا۔ ان کا طویل ناولٹ “رپورٹر” صحافیوں کی دلیری، انڈر ورلڈ اور پولیس کے پس منظر میں لکھا گیا ایسا ناولٹ ہے جس میں تجسس کا عنصر غالب ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے احمد اقبال کے مشہور “شکاری” کا سا اثر رہتا ہے۔
علی انسانی رویوں کا بہت بڑا نفسیات دان ہے۔ اس کے کردار چائے والا، ٹیکسی ڈرائیور، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو سادہ زبان بولتے اور زندگی کا ایک محدود ادراک رکھتے ہیں۔ اس سادگی کے باوصف ان کرداروں کی دانش حیران کن ہے جو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی بات کہہ دیتے ہیں۔ انسانی لامحدود خواہشات کے سمندر میں تکمیل کے ساحل پر اپنے آپ کو محدود کرنے کا خمیازہ کیسے اپنی ذات کی نفی کر کے دیا جاتا ہے، یہ علی نے بڑی مہارت سے سمجھایا ہے۔ اس کی تحریر ممتاز مفتی کے الفاظ میں ایسے پکوڑے ہیں جسے چکھ کر قاری سی سی کر اٹھتا ہے۔
انتہائی سنجیدہ صورتحال میں بھی علی مزاح کو اپنی تحریر سے دور نہیں ہونے دیتا اور قاری کو اپنی تحریر سے جوڑے رکھتا ہے۔ اس کے افسانوں میں کہیں کہیں منٹو کا رنگ نظر آتا ہے تو کہیں وہ ممتاز مفتی کی سی بے تکلف روانی لگتی ہے۔ اس کی زبان سادہ اور انداز دوستانہ ہے۔ اس کے کرداروں کی اپنائیت آپ کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے جبکہ اس کی منظر نگاری قدرتی ہے۔
کتاب کا واحد قابل گرفت عنصر علی کی اپنی حقیقی ذات کو اپنے افسانوں میں انڈیلنا ہے۔ گو کہ یہ بھی صرف اس کے احباب اور تعلق داروں کو ہی معلوم ہو سکتا ہے لیکن تخیلاتی دنیا کی تشکیل میں قابل اعتراض امر ہے۔
علی کے پاس بے پناہ تخلیق کا مادہ ہے جو ان افسانوں سے عیاں ہوا ہے۔ اردو افسانے میں علی ایک خوشگوار اضافہ ہے۔
سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔