خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
یہ ایک ایسا مقدمہ تھا کہ جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی تھی۔ ریاست نے اپنے ایک شہری کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ درج کرا دیا تھا۔ عوام بازاروں میں، چوکوں اور تھڑوں پر اس مقدمہ پر بحث کر رہے تھے۔ مقدمہ میں عوام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے دفعہ ۱۴۴ لگا دی گئی۔ نقص امن کے پیش نظر عدالت جانے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے۔

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا سرکار بنام شہری مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی۔ خصوصی عدالت کے ججز اپنی اپنی نشست پر بیٹھ چکے۔ کٹہرے میں کھڑا ملزم پُرسکون لیکن اپنے اندر طوفان سمیٹے دکھائی دیتا تھا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے اور ملزم کو فرد جرم پڑھ کر سنائی جاتی ہے کہ ملزم ایک تعلیم یافتہ شخص ہے اور آئین و قانون سے بخوبی واقف ہونے کا دعویٰ دار بھی ہے اس کے باوجود عدالت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولتا اور لکھتا رہتا ہے، جو کہ آئین پاکستان کے تحت سنگین جرم ہے۔ اس لئے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

عدالت: ملزم کو اجازت ہے کہ وہ عدالت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے دفاع میں جو کہنا چاہتا ہے بیان کر سکتا ہے۔ جرم کی سنگینی کے باعث سب نگاہیں ملزم پر مرکوز ہیں لیکن ملزم کا پر سکون چہرہ کسی طوفان کی غمازی کر رہا ہے۔

ملزم: سب سے پہلے میں اس معزز عدالت کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے سچ بولنے کی اجازت دی۔ حضور والا مجھ پر لگایا جانے والا الزام سراسر غلط ہے، میں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں اپنے شعور کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہاں ہر طرف انارکی پھیل جاتی ہے، نہ ہی انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی ضمانت رہتی۔ لوٹ مار اور قبائلی دشمنیاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ اداروں پر حملے ہوتے ہیں اور پورا ملک طوائف الملوکی کا شکار ہو جاتا ہے۔ حضور والا میں بھی بال بچوں والا ہوں، میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں؟ انصاف کا یہ مندر اگر ڈھا دیا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔ حضور والا میرا صرف ایک جرم ہے جس کا میں اس معزز عدالت کے سامنے برملا اعتراف کرتا ہوں۔ حضور والا میرا جرم یہ ہے کہ میں کسی کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جس پر تنقید کرتا ہوں وہ شخص میری تنقید کو اپنے ادارے پر تنقید سے تعبیر کرتا ہے۔ حضور والا میں رحم کی درخواست نہیں کروں گا لیکن انصاف کا طالب ضرور ہوں۔ حضور والا ہر ادارے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اگر اچھے لوگوں کی ستائش کی تحسین کی جاتی ہے تو غلط کام پر تنقید کو بھی مثبت انداز میں ہی لینا چاہیے۔ حضور والا حقائق بہت تلخ ہیں اس لئے مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں اس معزز عدالت سے معافی کا خواستگار ہوں۔

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

عدالت: ملزم اپنا بیان جاری رکھے یہ عدالت ملزم کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہونے دے گی۔

ملزم: حضور والا کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے اس ملک میں چار بار اعلانیہ مارشل لا لگایا گیا۔ مارشل لا لگانے کے اس اقدام پر میں پوری فوج کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا لیکن جس شخص نے اپنے اقتدار کی خاطر یہ فعل سر انجام دیا کیا اس پر تنقید جرم ہے؟ کیا بانی پاکستان نے جوانوں سے نہیں کہا تھا کہ آپ ریاست کے ملازم ہیں اور ہم حکمران، ہم جو حکم دیں گے اس پر عمل کرنا آپ کا فرض ہے۔ میں اگر فوجی آمر پر تنقید کرتا ہوں تو یہ ادارے پر تنقید کیسے ہو گئی؟ جو آئین کو چند صفحات کی کتاب کہتے ہیں آئین ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ معزز عدالت اس کا بہتر اداراک رکھتی ہے۔ ساری عدلیہ کو فارغ کر کے معزز جج صاحبان کو گھروں میں نظر بند کر دیا جاتا ہے لیکن اس کے خلاف بولنا اور لکھنا غداری کہلاتا ہے۔ کیا اس اقدام کی تحسین کی جانی چاہیے؟ کہا جاتا ہے کہ ہم جانیں دے رہے ہیں، بے شک جو ملک و قوم کی سلامتی کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں ان کو مجھ سمیت پوری قوم کا سلام لیکن قوم کے بیٹوں کی شہادتیں آپ کو آئین سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس ملک کے شہری آئے روز لاپتہ ہوتے ہیں اور وہ کس کی تحویل میں ہوتے ہیں یہ کوئی راز نہیں۔ برسوں گزر جاتے ہیں لیکن ان کے لواحقین کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا بیٹا، بھائی، میاں یا باپ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ حضور والا، ذرا اس عورت کے کرب کا اندازہ کریں جسے  یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اب تک بیوی ہے یا بیوہ ہو چکی ہے۔ حضور میری تنقید ان پر ہے جو انسانیت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

ملزم: حضور والا ایک بار پھر معافی کا خواستگار ہوں کیونکہ اب عدالت کی نسبت سے مجھ پر لگائے گئے الزامات کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ حضور والا کیا یہ حقیقت نہیں کہ جہاں ایسے کئی نامور ججز گزرے ہیں جن پر ہماری عدلیہ فخر کر سکتی ہے۔ وہاں چند ایسے بھی گزرے ہیں جن پر آج خود عدلیہ شرمندہ ہے۔ کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایک جج کے ایک غلط فیصلے نے قوم کو چار مارشل لا کا عذاب دیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ چند ججز کے فیصلے نے ہم سے ایک ذہیں ترین عالمی شہرت یافتہ وزیر اعظم چھین لیا۔ محض چند ججز کے فیصلہ نے ہم سے ایک اور وزیر اعظم چھین لیا جو پاکستان کو ترقی کی بلندی کی طرف لے جا رہا تھا۔ حضور والا میں نے جو کہنا تھا بیان کر دیا۔ اب عدالت جو فیصلہ سنائے گی مجھے قبول ہوگا۔

عدالت میں ایک گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے۔ وقفہ کے بعد جج صاحبان کمرہ عدالت میں آ کر مختصر فیصلہ سناتے ہیں۔ یہ عدالت سمجھتی ہے کہ ماضی میں ہر ادارے سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اب لکیر پیٹنے کا فائدہ نہیں بلکہ آئندہ کیلئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ عدالت ملزم کو بے گناہ مانتے ہوئے فوری با عزت بری کرنے کا حکم دیتی ہے۔

اچانک بادل کے کڑکنے  کی آواز سے آنکھ کھل جاتی ہے۔

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔