پنجاب پولیس کا "پب جی” و دیگر خطرناک گیمز پر پابندی کیلئے حکومت سے سفارش کا فیصلہ

پنجاب پولیس کا
پنجاب پولیس نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو پب جی سمیت دیگر خطرناک وڈیو گیمز پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو نوجوانوں میں تشدد کے رجحانات کو فروغ رہی ہیں اور ان پر پابندی سے نوجوان نسل کو ان کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہا جاسکے گا۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ پولیس کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ’ پب جی‘ جیسی گیموں کی وجہ سے فائرنگ کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، اسی لیے محکمہ پولیس نے اس طرح کی گیمز پر پابندی کے لیے حکومت سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پابندی سے متعلق سفارشات دینے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے کاہنہ میں ہونے والے واقعے کے تناظر میں کیا گیا ہے، افسوسناک واقعے میں 14 سالہ لڑکے نے گیم سے بُری طرح سے متاثر ہوکر اپنے خاندان کے چار افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، مقتولین میں لڑکے کی ماں اور 3 بہن بھائی شامل تھے، لڑکے کی ماں ناہید مبارک لیڈی ہیلتھ ورکر تھیں۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ پب جی‘ نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے بہت خطرناک گیم ہے کیونکہ اس گیم کو زیادہ کھیلنے والے اس میں دیے گئے اہداف اور ٹاسک کو مکمل کرتے کرتے بہت زیادہ جارح مزاج ہوجاتے ہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس کی طرف سے والدین سے درخواست کرتے ہوئے ترجمان محکمہ پولیس پنجاب کا کہنا تھا والدین اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور ان کو کسی بھی منفی سرگرمی میں مشغول ہونے سے روکیں۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب پولیس راو سردار علی احمد خان نے خاندان کو قتل کرنے کے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور لاہور پولیس کو کیس کو حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا واقعے کی ابتدائی تحقیقات میں دیگر شواہد کے علاوہ پولیس کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ نوجوان لڑکا زین علی اپنے کمرے میں مکمل تنہائی میں رہتا تھا اور ’ پب جی‘ گیم کی لت میں مبتلا تھا۔

ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ جرم کرنے کے بعد وہ اپنی ماں کے جنازے میں شرکت کے لیے جڑانوالہ گیا لیکن اس کے بعد لاہور واپس آنے کے بجائے فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں میں روپوش ہوگیا، زین علی کو پب جی کی لت ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ سے لگی۔

ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ گیمز میں مسلسل ناکامی نے اس میں تناؤ بہت زیادہ بڑھا دیا تھا اور اس نے یہ سوچتے ہوئے اپنے گھر والوں پر فائرنگ کردی کہ جس طرح گیمز میں مارے جانے والے کردار زندہ ہوکر واپس آجاتے ہیں ایسے ہی اس کے اہل خانہ بھی واپس آجائیں گے۔

انہوں بتایا کہ قتل کے واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے اور قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مشتبہ شخص کو سزا دی جائے گی۔

واضح رہے کہ آن لائن گیمز سے متعلق یہ اس طرح کا چوتھا واقعہ ہے۔

جب اس طرح کا پہلا واقعہ 2020 میں سامنے آیا تھا تو اس وقت کے کیپیٹل سٹی پولیس چیف ذوالفقار حمید نے لوگوں کی زندگیاں، وقت اور لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل بچانے کے لیے اس طرح کی گیمز پر پابندی کی سفارش کی تھی۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران ’ پب جی‘ گیم کھیلنے والے تین نوجوان خودکشیاں کر چکے ہیں اور پولیس نے اپنی رپورٹ میں اموات کی وجہ گیم کو قرار دیا تھا۔