تصادم کی طرف پیش قدمی: کیا عمران خان پاکستان چلانے کے اہل ہیں؟

تصادم کی طرف پیش قدمی: کیا عمران خان پاکستان چلانے کے اہل ہیں؟
وزیراعظم عمران خان کا غصے میں یوں پھٹ پڑنا پہلی بار نہیں ہے لیکن حال ہی میں ان کے براہ راست نشر ہونے والے ٹی وی سیشن میں یوں آواز بلند کر بیٹھنا کسی ایسے شخص سے متوقع نہیں تھا کہ صورتحال جس کے قابو میں ہو۔ ان کا دھمکانے والا انداز ان کے اندر موجود گہری بے چینی اور کمزور پڑنے کے احساس کو ظاہر کر رہا تھا۔

انہوں نہ اپنا غصہ نہ صرف حزب اختلاف کے خلاف نکالا، بلکہ عدلیہ اور میڈیا کو بھی نشانہ بنایا اور وہ ان کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ہر غلط امر کے ذمہ دار قرار دیے گئے۔ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑتے نظر آئے، اگرچہ ہار ماننے کے لئے تیار وہ اب بھی نہیں۔ گو کہ ان کا انہدام ہونا ابھی ٹھہرا نہیں، لیکن پیش آئے واقعات اب ان کی حکومت پر کئی سوالات کھڑے کر چکے ہیں۔

وزیر اعظم نے ایک وارننگ بھی جاری کی کہ حکومت میں نہ ہونے کی صورت میں وہ زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ یہ دھمکی کسے دی گئی، اس بارے میں کچھ زیادہ تیقن سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اس سے مجھے فرنچ لوئس 15 سے منسوب ایک بیان یاد آ جاتا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا، "میرے بعد اک طوفان (کی آمد ہوگی)۔"

اس معاملے سے اختتام کی مہر ثبت نہیں ہوتی لیکن وزیر اعظم کے الفاظ نے ان کی حکومت کی کم ہوتی ہوئی طاقت کے مقبول عام تاثر کو مزید گہرا ضرور کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی جانب سے اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ حکومت نے کب غلط قدم اٹھایا، کوئی ارادہ نظر نہیں آتا اور درپیش مسائل کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ملک کو درپیش مشکل صورتحال کی وجہ یا تو گذشتہ حکومتوں یا مافیاز کو قرار دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کی فرسٹریشن کرپشن کے خلاف اس مہم کے انہدام سے بھی بڑھتی نظر آتی ہے جس کا نشانہ بنیادی طور پر قائدین حزب اختلاف رہے۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دارانہوں نے عدلیہ اور میڈیا کو ٹھہرایا۔

یہ بات اب عیاں ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور 'تبدیلی' لانے کے وعدوں میں ناکامی کے سبب عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی سے وہ شدید دبائو میں ہیں۔ مہنگائی کا محرک کلیتہً بیرونی وجوہات کو قرار دینا لوگوں کو مطمئن نہیں کر پا رہا۔ عالمی محرکات کا انکار نہیں لیکن گورننس کی ناکامی اور غلط پالیسیاں بھی ملک میں بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا سبب رہی ہیں۔ اس کا ذمہ دار 'مافیاز' اور ذخیرہ اندوزوں کو ٹھہرانا ان لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتا جو غذائی قیمتوں سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

سیاسی حمایت کے حوالے سے حکمراں جماعت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ خاص کر خیبر پختونخوا کے ضمنی انتخابات میں ہونے والا 'اپ سیٹ' پارٹی کی سیاسی 'بیس' کمزور پڑ جانے کا ثبوت ہے۔ اس سے پارٹی کی صفوں میں ویسع تر ہوتی خلیج بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بحرانی کیفیت کے دوران پارٹی کی تنظیم نو کے اعلان نے کنفیوژن میں اضافہ کیا ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت جب حزب اختلاف نے حکومت کو گرانے کی اپنی مہم تیز کی ہوئی ہے۔

حکومت کی پریشانی کو بڑھانے کا ایک سبب سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے گروپس کے درمیان 'ڈیل' کی افواہیں ہیں، جس سے وزیر اعظم کی پریشانی بظاہر دوچند ہو چکی ہے۔ ان کی بے چینی ان افواہوں کی جانب اشارے سے ظاہر تھی۔ یہ امکان کسی ایسی حکومت کے لئے پریشان کن ہی ہو سکتا ہے کہ جس کا اپنی بقا کے لئے زیادہ تر انحصار اسٹیبلشمنٹ پر رہا ہو۔ ملکی سیاست میں ایسی ڈیلز انہونی بھی نہیں۔ حزب اختلاف کی صفوں میں بڑھتی ہوئی خود اعتمادی اور پھر اسلام آباد مارچ کے اعلان نے ان افواہوں کو تقویت دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اور حکومت کے درمیان فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔

یہ عمل 'ہائبرڈ پاور' کے انتظام کے کمزور پڑنے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی تحیر کی بات نہیں کہ وزیر اعظم کا یہ بیان کہ حکومت سے باہر وہ 'زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں'، بہت سوں کی جانب سے حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی کے لئے ایک دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا مؤقف رکھنا خود کو کمزور بھی ظاہر کر سکتا ہے اور ایک کمزور 'اتحاد' کو آشکار بھی۔ ایسا کوئی تاثر پی ٹی آئی کے لئے حوصلہ شکن ثابت ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی حاکمانہ اور غیر معقول روش ان کی حکومت کو اپوزیشن کی مہم سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔

حزب اختلاف کے ساتھ حساس قومی معاملات پر تک بات چیت سے انکار نے ملک میں جمہوری عمل کو کمزور کر دیا ہے۔ اور وزیر اعظم کے یہاں اس بات کا بہت کم ادراک پایا جاتا ہے جب کہ اس کمزور نظام نے ان کی حکومت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ وزیر اعظم چاہیں تو اپنے آپ کو جمہوری طور پر منتخب لیڈر کہہ سکتے ہیں، لیکن پارلیمان کو عزت دینا ان کے یہاں ابھی بھی مفقود ہے، منتخب نمائندوں کے لئے ان کے بیان میں ہتک بہت واضح تھی۔

سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ وزیر اعظم حزب اختلاف کے سربراہ سے کیوں بات چیت کے لئے تیار نہیں، اور انہیں 'کرمنل' کہتے بھی ہیں، لیکن ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہوں کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ وہی گروہ جس نے اب جنگ بندی سے پیچھے ہٹتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھا دیے ہیں۔ حال ہی میں اس گروہ نے اسلام آباد اور دیگر مقامات پر دہشتگرد حملے کیے ہیں۔ حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے اور کالعدم عسکریت پسند گروہوں کو راضی رکھنے کی پالیسی نے ملک میں جمہوری عمل کے لئے خاصی خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔

خود کو حق پر سمجھنے اور سیاست میں مذہب کے استعمال نے حکومت کی مشکلات بڑھا دی ہیں، جب کہ گورننس و سیاست کی گراوٹ بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں کچھ مقامی اخبارات میں وزیر اعظم کی ایک تحریر بنام 'اسپرٹ آف ریاست مدینہ: ٹرانسفارمنگ پاکستان' شائع ہوئی، جس میں ان کے اسلامی فلاحی ریاست کے تصور پر روشنی ڈالی گئی، اور قانون کی عملداری پر خاص زور دیا گیا۔ تحریر کے مفہوم کے مطابق ملک کو 'الیٹ کیپچر' کا سامنا ہے، جہاں طاقتوراورمکار سیاستدان، ذخیرہ اندوز اور مافیا قانون سے بالا رہنے کو اپنا وطیرہ بنا چکے ہیں تاکہ وہ کرپٹ نظام سے حاصل کی ہوئی مراعات کو برقرار رکھ سکیں۔

'الیٹ کیپچر' کے حوالے سے تو شاید کوئی اختلاف رائے نہ ہو، لیکن پی ٹی آئی کی تمام سیاست اسی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ وزیر اعظم کے اطراف موجود لوگ اسی 'طبقہ امرا' سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس سے لڑائی مول لینے کا انہیں دعویٰ ہے۔

وزیر اعظم کا مفہوم ریاست مدینہ اتنا ہی غیر واضح ہے جتنی کہ ان کی سیاست۔ ناقابل فہم اصطلاحات ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز کو حل نہیں کر سکتیں۔ ان کا حالیہ دنوں میں ٹیلی وژن پر پھٹ پڑنا ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ملک چلانے کی ان کی صلاحیت پر سوالات کھڑے کر رہا ہے۔




زاہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔