ن لیگ کے پاس تگڑے امیدوار مگر ووٹر پی ٹی آئی کے ساتھ ہے

موجودہ حالات میں کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کو دوسری جماعت سے برتر قرار دینا مشکل ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے جلسے بتاتے ہیں کہ صرف پی ٹی آئی ہی واحد مقبول جماعت نہیں، ان کے پاس بھی دکھانے کے لئے کارکردگی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا چاہنے والا کسی دوسرے کو ماننے سے انکاری ہے۔

ن لیگ کے پاس تگڑے امیدوار مگر ووٹر پی ٹی آئی کے ساتھ ہے

اگر کسی بھی خاص سیاسی جماعت کی ٹوپی دماغ سے اتار کر دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب میری نظر میں کچھ یوں ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکومت نے شامل اقتدار جماعتوں کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے بھرپور عوامی اجتماعات اور سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے ان جماعتوں کے خلاف ایکسپوز پروگرام شروع کیا بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنا ہمدرد بھی بنایا۔ 9 مئی اگر نہ ہوتا اور پی ٹی آئی بروقت انٹرا پارٹی الیکشن درست کروا لیتی تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی 8 فروری کو ضمانتیں ضبط ہونے کی خبریں ہی آ رہی ہوتیں، بالخصوص پنجاب میں۔ انتخابی مہم میں جلسے برابر کے ہو رہے ہیں۔ میری نظر میں اس وقت مقبولیت کا پلڑا سب کا برابر ہے۔ کوئی بھی ایک جماعت قومی اسمبلی کے انتخابات میں کسی ایک صوبے پر اجارہ داری نہیں رکھتی، ماسوائے پیپلز پارٹی کے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی سب سے تگڑی جماعت ہے لیکن اس کے امیدواروں کے پاس بلا نہیں ہے۔ بلوچستان سے جو رپورٹس آ رہی ہیں ان کے مطابق مکس پروگرام چل رہا ہے۔ سب سے دلچسپ صورت حال پنجاب کی ہے جس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں مقبول ترین ہیں لیکن حقیقت میں کوئی بھی مقبول نہیں۔ بلاول بھٹو لاہور میں اگر معرکہ سر کر گئے تو وہ سب کو پیچھے چھوڑنے کے مترادف ہو گا کیونکہ لاہور ن لیگ کا گڑھ اور پی ٹی آئی کا گھر ہے۔

موجودہ حالات میں کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کو برتر قرار دینا درست نہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے جلسے بتاتے ہیں کہ صرف پی ٹی آئی ہی جماعت نہیں، ان کے پاس بھی لوگوں کو منہ دکھانے کے لئے کارکردگی ہے لیکن پی ٹی آئی کا چاہنے والا کسی دوسرے کو ماننے سے انکاری ہے۔ یہ اس کا سراب ہے یا اپنے لیڈر سے محبت، اسے جو مرضی نام دے لیں۔ اس ساری رسہ کشی میں بلاول بڑی باریک بینی سے خود کو پنجاب کے لوگوں کے لئے ایک آپشن کے طور پر پیش کر چکا ہے اور اس میں کامیابی بھی حاصل کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں ن لیگ کے امیدوار تگڑے لیکن ووٹر کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ راولپنڈی میں ن لیگ کے امیدوار تگڑے اور ووٹر کا جھکاؤ بھی ن لیگ کی طرف ہے لیکن اس ڈویژن سے پی ٹی آئی اور ساتھ ہی پیپلز پارٹی بھی راجہ پرویز اشرف والی سیٹ نکالتی نظر آتی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اب کی بار پاکستانی اپنی نوعیت کا ایک منفرد انتخابی ماحول دیکھ رہے ہیں۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ اب تک 1970 کے انتخابات میں رہا ہے جو تقریباً 53.96 فیصد تھا جبکہ سب سے کم ٹرن آؤٹ 1997 کے انتخابات میں ریکارڈ ہوا جو 35.4 فیصد رہا۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں بہتری دیکھی گئی جب یہ 53.62 فیصد تک پہنچا لیکن 2018 کے انتخابات میں بہتری کی یہ رفتار برقرار نہ رہ سکی اور ٹرن آؤٹ قدرے کم ہو کر 51.5 فیصد رہ گیا۔

2018 کت بعد گذشتہ برسوں میں آبادی میں اضافے کے ساتھ ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں 5 کروڑ 70 لاکھ ووٹرز تو صرف نوجوان ہیں جو کل ووٹرز کا 45 فیصد بنتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ووٹرز جتنے پرجوش ہیں اس تناسب سے نکل آئے تو ٹرن آؤٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر بھی پہنچ سکتا ہے۔

خیر بات مقبولیت سے شروع ہوئی تھی اس کا پتہ تب چلنا ہے جب بیلٹ باکس کھلیں گے۔ میری نظر میں فی الحال کوئی ایک بھی لیڈر یا جماعت مقبولیت میں آگے نہیں۔ باقی اگر کسی جماعت کی محبت آپ کے دل میں ہے اور ٹوپی اس کی آپ کے دماغ پر ہے تو آپ کو وہی جیتتی ہوئی نظر آ رہی ہو گی۔

فیصل عباسی 92 نیوز کے ساتھ بطور نیوز اینکر وابستہ ہیں۔