کیپٹن شاہ میر رپورٹنگ سر!

کیپٹن شاہ میر رپورٹنگ سر!
یہ ایک ایسے شہید کی سچی داستان ہے جس نے اپنا وجود وطن کی محبت میں قربان کرتے وقت اک لمحہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے بعد اس کے لواحقین کا کیا ہوگا کیونکہ فرض ہر رشتے سے بڑھ کر تھا۔

رات کا پچھلا پہر تھا خاموشی بہت گہری تھی سڑک کے دونوں جانب جھکے درختوں نے اس اندھیری رات کو مزید تاریک بنا دیا تھا۔ ایک سایہ سڑک کے کنارے ایک بوسیدہ گدڑی اوڑھے ملنگ کی طرف بڑھا، ملنگ وجد کے عالم میں آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ سایہ دبے قدموں ملنگ کے قریب آیا پھٹی ہوئی دری کا کونا اٹھایا اور ایک سفید کاغذ کا ٹکڑا جلدی سے رکھ کر الٹے قدموں لوٹ گیا۔ ملنگ نے ایک دم اپنی سرخ آنکھیں کھولیں اور کاغذ کو دیکھ کر ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رینگ گئی۔

ماں صدقے پتر شاہو! ”رب تیری عمر وڈھی ہوئے اٹھ جا میں تیرے واسطے دیسی انڈے تے پرونٹھے پکائے نے“۔ بےجی نے شاہ میر کو بڑی محبت سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ شاہ میر نے نے اپنی نیند کے خمار سے سرخ ہوتی کشادہ آنکھیں کھولیں، ”بے جی تسی کیوں تکلیف کیتی” دو دن کی چھٹی ہے بس میری وہ بھی آپ سارا وقت چولہے کے آگے اس سخت گرمی میں گزار دیتی ہیں۔ شاہ میر نے محبت سے ماں کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔

نا پتر ماواں نوں گرمی نہیں لگدی پتر تے میٹھے میوے ہوندے نے رب سب ماواں دے لال جیوندے رہین۔ بے جی نے جذبات سے مغلوب ہو کر دعا دی۔ شاہ میر اٹھ کر منہ ھاتھ دھونے چل دیا۔

کیپٹن فرید رپورٹنگ سر! دونوں ایڑیاں زمین پر بجاتے ہوئے کیپٹن فرید نے مخصوص فوجی انداز میں سلوٹ کیا۔ یس جنٹلمین کیا رپورٹ ہے کچھ خبر موصول ہوئی؟ میجر احمد نے سوال کیا۔ سر ابھی تک کچھ اچھی خبریں موصول نہیں ہو رہیں “را” نے اپنا جال بچھانا شروع کر دیا ہے، ہمارے انفارمر کے مطابق “را” اس بار گہری اور گھناؤنی سازش سے ملکی سالمیت کو بھرپور نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔

انفارمیشن کے مطابق کچھ جاسوس داخل ہو چکے ہیں۔ میجر احمد کے چہرے پر ایک دم تفکر چھلکنے لگا۔ ویل جنٹلمین کیپٹن میر کو فوراً واپس بلائیں میں ہیڈ کواٹر اطلاع کرتا ہوں ہمیں دشمن کی ہر ممکنہ چال اور حملے کے لئے مکمل تیار رہنا ہوگا۔ یس سر! کیپٹن سعد نے بیس کیمپ تک رسائی حاصل کر لی ہے لیکن ابھی تک گرین سگنل موصول نہیں ہوا اور کیپٹن شاہ میر چھٹی پہ ہیں پرسوں تک واپس آجائیں گے۔ اوکے کیپٹن میر جونہی آتے ہیں فوراً رپورٹ کریں۔

یس سر!

اوکے یو کین گو ناؤ۔ میجر احمد نے جواب دیا۔

ملنگ نے کاغذ کا وہ ٹکرا اٹھایا اور سردائی کے گھونٹ کے ساتھ اندر نگل لیا، پہنچنے والی اطلاع میں کوچ کا اذن تھا۔ ملنگ نے “حق ہو“ کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور ایک وجد کے عالم میں آنکھیں پھر سے بند کر لیں کہ اب کوچ کی تیاری کرنی تھی۔

فاریہ نے اپنے کمرے کی کھیتوں کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھولی تو دور اسے ایک ہیولہ نظر آیا پہلے وہ سمجھی نظر کا دھوکا ہے پھر غور سے دیکھا تو لگا دل کی دھڑکن نے ایک بِیٹ مس کر دی ہو۔ وہ کیپٹن شاہ میر تھا، پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی، چھ فٹ سے نکلتا قد، کلین شیو، مضبوط بازو چوڑا سینہ، کسرتی بدن، سیاہ شلوار سوٹ میں ملبوس، ماتھے پہ بکھرے بال، سورج کی کرنیں اس زاویے سے اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھیں کہ دور سے وہ کوئی یونانی دیوتا لگ رہا تھا۔

فاریہ شاہ میر کی منگیتر اور چچا ذاد تھی اور بی۔ایس۔سی کے پیپر دے کر ابھی فارغ ہی ہوئی تھی اور ابھی پیپرز سے کچھ ماہ ہی پہلے بے جی نے اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر اسے ڈالتے ہوئے کہا تھا “اے دھی ہن ساڈی اے محمد اکرم” اور ابا جی نے بڑے انکسار سے کہا تھا “تہاڈی امانت اے جدوں مرضی لے جاؤ“ فاریہ نے کھڑکی سے ہٹ کر آ ئینے میں دیکھ کر اپنے بال درست کیے پرفیوم سپرے کیا اور جلدی سے نیچے اتر گئی۔ اماں تحت پہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں کہ دروازہ بجا اماں نے فاریہ کو آواز دی بیٹا دیکھنا کون ہے۔ دروازہ کھولا تو شاہ میر کھڑا تھا سامنے، فاریہ جھجھک کر دروازے کی سائیڈ پہ ہو گئی تو شاہ میر چچی جان کو سلام کرتے ہوئے دھیرے سے فاریہ کی طرف جھکتے ہوئے بولا آپ کے ہاں بڑوں سے سلام لینے کا رواج نہیں ہے کیا؟ لہجہ سنجیدہ مگر آنکھوں سے شرارت ٹپک رہی تھی۔ وہ گلابی رنگت کے ساتھ جلدی سے سلام لے کے کچن میں چائے بنانےگھس گئی۔ چچی جان چائے اگلی بار آؤں گا تو ضرور پیوں گا ابھی مجھے “شاہ سائیں” کی درگاہ پہ حاضری دینے جانا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں فاریہ کو ساتھ لے جاؤں؟ شاہ میر نے پوچھا “ہاں بچے لے جاؤ“ رضیہ چچی کو اپنے بچوں پر مکمل بھروسہ تھا سو فوراً اجازت دے دی۔ حاضری تو اک بہانہ تھی ورنہ جو وہ اس سے کہنا چاہتا تھا اس کیلئے ”شاہ سائیں” کے در سے اچھی جگہ کوئی نہ تھی۔

چلیں شاہ میر نے فاریہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ گھر سے نکل کر دونوں دھیرے دھیرے پگڈنڈی پر چلتے ہوئے شاہ سائیں کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دور سے کسی مجاور کی پر سوز آواز فضا میں گھُل رہی تھی۔

میری ڈاچی دے گل وچ ٹلیاں

میں تاں پیر مناون چلی آں

شاناں والیا پیرا ہو

وہ مزار کے احاطے کے باہر پہنچ گئے تھے شاہ میر نے فاریہ کی طرف دیکھا تو اک پل کے لئے اسے لگا وقت جامد ہوگیا ہو۔ جھیل سی گہری آنکھیں جن پر گھنی پلکیں سایہ کیے ہوئے تھیں، کمر سے نیچے جاتے سیاہ آبشار سے بال جو دوپٹے کے کونوں سے جھانک رہے تھے، صاف شفاف چہرہ جس پر بچوں سی معصومیت تھی جو ہر طرح کے تصنع سے پاک تھا۔ سفید دوپٹے کے حالے میں اک لمحے کو وہ شاہ میر کو کوئی پاکیزہ حور محسوس ہوئی کی جس کو یوں نگاہ بھر کر دیکھنے سے اس کا تقدس مجروح ہوجائے۔ وہ اس سے زیادہ اس کو نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کہ جو بات وہ اس سے کہنے والا تھا۔ اس کے لئے اس کو اپنی ہمت کم ہوتی محسوس ہوئی۔

صاحب مزار کے مرقد پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اس نے تو دل نے صدا کی اے پروردگار! میں جن راہوں کا مسافر ہوں تو جانتا ہے مالک مجھے استقامت عطا فرما، جو وعدہ اپنے وطن سے کیا اس کو وفا کر سکوں میرے رب تو گواہ رہنا کہ میں نے اس وطن کی خاطر خود کو تیرے سامنے پیش کر دیا ہے اور مالک اس آرزو کو پورا فرما جس کی تڑپ مجھے بےچین رکھتی ہے اور صاحب مرقد کے درجات بلند فرما۔ آمین

مزار کے احاطے میں لگے برگد کے پیڑ کے نیچے رکتے ہوئے شاہ میر نے دھیرے سے فاریہ کا ہاتھ تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا دعا میں کیا مانگا؟ فاریہ نے اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پلکیں جھکا کر کہا “میری ہر دعا ایک ہی نام سے شروع ہو کر اسی پہ ختم ہو جاتی ہے اور اس نام کے بنا اب میرا نام بھی ادھورا ہے”۔

شاہ میر نے اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوئے الفاظ کو ترتیب دی فاری! میں جو کہنے جا رہا ہوں اس کو بہت حقیت پسندی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے سننا اس نے تمہید باندھی، فاریہ نے متعجب اور سوالیہ نگاہوں کیساتھ اس کی طرف دیکھا۔

فاری! یہ رشتہ بے جی اور چچا جان نے بہت مان اور خوشی سے طے کیا تھا، اگر آج حالات اچھے ہوتے تو میں خود کو خوش نصیب ترین انسان سمجھتا تمہارا ساتھ دنیا میں جنت ہوتا میرے لئے لیکن اس دھرتی کا مجھ پر پہلا حق ہے۔ میرے خواب، وفا اور وجود اس وطن کی امانت ہے میں جن راہوں کا مسافر ہوں وہاں سے واپسی کی کوئی ضمانت نہیں، میں کسی آس کسی خواب کی ڈور میں تمہیں مقید نہیں کرسکتا، نہ ختم ہونے والا انتظار، ہجر کے طویل دن اور فراق کی سلگتی راتیں تمہارا مقدر نہیں کرسکتا۔ تم بہت معصوم ہو، کمسن ہو اپنا بوجھ میں تم پر نہیں ڈال سکتا سو میں تمہیں اس وعدے اور اس بندھن سے آزاد کرنا چاہتا ہوں جو بے جی نے باندھا تھا۔

یہ کہہ کر شاہ میر نے منہ پھیر لیا کہ ضبط سے اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں تھیں، وہ ایک بہادر اور آہن حوصلے والا فوجی تھا لیکن محبت بڑی ظالم ہوتی ہے پہاڑوں پہ وعید ہو تو ان کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے یہ تو پھر ایک دل تھا۔ فاریہ کا بدن لرز رہا تھا، حوصلے کی طنابیں چھوٹنے کو تھیں اور پلکوں پہ لرزتے آنسو تیزی سے آنکھوں سے بہنے لگے۔ آپ نے کیسے یہ گمان کر لیا کہ میری محبت اتنی کمزور ہوگی اور صرف آپ پر تنہا ہی اس دھرتی کا قرض نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی آپ کے علاوہ کچھ سوچا ہی نہیں آپ ایسے یک طرفہ کوئی فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں جس نے آپ سے محبت کی ہے وہ بزدل کیسے ہو سکتی ہے؟ جس راستے پر آپ چلیں گے میں اپنی آخری سانس تک اس سفر میں آپ کی ہمسفر ہوں گی واپس آئیں گے تو غازی ورنہ شہید کی بیوہ۔ آپ مجھ سے یہ حق چھین نہیں سکتے اور یہی میرا فخر ہوگا۔ اس نے سسکتے ہوئے شاہ میر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیے۔

وہ ایک چھوٹی سی مگر پہاڑوں سا حوصلہ رکھنے والی لڑکی کے سامنے ہار گیا تھا اس نے دھیرے سے اس کو ساتھ لگا لیا۔ پاس سے گزرتے فقیر نے صدا بلند کی۔

میرے ہتھ کٹورا اے منگاں دا

میرا پیر ولی اینہاں راہواں دا

شاناں والیا پیرا ہو

دونوں نے منت کا دیا روشن کر دیا تھا۔ واپسی پر فیصلہ ہوچکا تھا۔ اگلی صبح سادگی سے شاہ میر فاریہ کو رخصت کروا کے لے آیا کہ کل اس کو واپس یونٹ جانا تھا۔ اس رات ان دونوں نے اپنی ساری زندگی جی لی تھی۔ جانے سے پہلے شاہ میر نے ایک رات کی اپنی دلہن کو نگاہوں میں بھر کے اس کے مہندی لگے ہاتھوں کو بڑے جذب سے تھاما اور ہونٹوں سے لگا لیا۔ لاکھ ضبط کے باوجود آنسو پلکوں پر لرزنے لگے تو اس نے گرنے سے پہلے ہی اپنی پوروں پہ چن لیا۔ ایسے کروگی تو میں جا نہیں سکوں گا بولو ایسے رخصت کرو گی؟ ابھی تو بہت طویل سفر ہے میرا۔ اور تم تو حوصلہ ہو میرا میں چاہتا ہوں جب بھی آنکھیں بند کروں تو تمھارا ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آئے ایسا روتا دھوتا ہوا نہیں۔

شاہ میر نے اس کو خود سے قریب کرتے ہوئے کہا۔ فاریہ نے چھوٹے بچوں کی طرح روتے روتے مسکرانے کی کوشش کی۔ ابا جی نے باہر سے آواز دی پتر ٹانگہ آگیا ہے اور شاہ میر نے آخری بار اس کو نظروں میں بھر کر اس کی ماتھے بوسہ دیا اور باہر نکل گیا۔

کیپٹن شاہ میر رپورٹنگ سر! ویلکم بیک ینگ مین۔ میجر احمد نے جواب دیا۔ تھینک یو سر سنا ہے شادی کر کے آرہے ہیں۔ جی سر! شاہ میر نے جواب دیا۔ بہت مبارک ہو۔ شکریہ سر۔ ویل شادی کی پارٹی انشااللہ آپریشن سے واپس آنے کے بعد میری طرف سے ہوگی میجر احمد نے کہا۔ ابھی آپ کو فوراً نکلنا ہو گا۔ آپریشن کی بریفنگ کے لئے آپ جوانوں کے ساتھ ہال میں آجائیں۔ یس سر!

پچھلے دس دن سے ملنگ کے روپ میں کیپٹن سعد دشمن کی نگرانی کر رہے تھے یہ ایک دو منزلہ مکان تھا جس کا مکمل نقشہ دشمن کے اوقات، نقل و حرکت ایکشن پلان وہ تیار کر چکے تھے۔ سپیشل کمانڈوز کا آپریشن لیڈر شاہ میر تھا اس کو دشمن کو زندہ پکڑنا تھا کہ وہ ایک خطرناک را کا جاسوس تھا، جس کے پاس ان کے اگلے منصوبوں کی حساس تفصیلات تھیں۔ رات کے آخری پہر میں جب سب گہری نیند میں تھے شاہ میر اپنے جوانوں کو لیڈ کرتے ہوئے مکان کی عقبی گلی سے داخل ہوا۔ کمانڈوز کی دو ٹولیاں تھیں ایک کو کیپٹن سعد اور دوسری کو شاہ میر لیڈ کر رہا تھا۔ وہ سامنے سے خود داخل ہوا اور سعد دوسری جانب سے، اندر داخل ہوتے ہی اچانک اوپری منزل سے ایک فائر کیا گیا۔ شاید داخل ہوتے ہوئے معمولی آہٹوں نے دشمن کو چوکنا کر دیا تھا۔

شاہ میر نے جوابی فائر کیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ سعد نے پچھلی جانب سے دشمن کی طرف بڑھنا جاری رکھا۔ اس اثنا میں ایک اور فائر سامنے کی جانب کیا گیا جو سیدھا آکر کیپٹن شاہ میر کے سینے میں لگا۔ اسی دوران سعد اوپری منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور دشمن کو زیر کرچکے تھے۔ لیکن دشمن کی فائر کی ہوئی گولی کیپٹن شاہ میر کے دل کے آر پار ہو گئی تھی۔ اور وہ  شہادت کے عظیم رتبے کو پا چکے تھے۔ سعد نے نم آنکھوں سے اس سجیلے کو دیکھا جس کے چہرے پہ نور برس رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پہ اک الوہی مسکراہٹ تھی۔

سُن سکھیے ان آنکھوں کا پانی، لال میرے دی جوانی

رب نے اپنے پاس بلایا، رب کے حکم پر سر کو جھکایا

فری پتر! آج دل بہت گھبرا رہا ہے بچے باہر آکر میرے پاس بیٹھو۔ بےجی نے فاریہ کو آواز دی جو نجانے کب سے شاہ میر کی تصویر کے سامنے کھڑی تھی۔ ہر آہٹ پہ اسی کا گمان ہو رہا تھا۔ عصر کا وقت قریب تھا درودیوار سے عجیب سی وحشت اور اداسی برس رہی تھی۔ بےجی نے فاریہ کے اداس چہرے کی جانب دیکھا تو دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ ہاتھ مہندی سے سجے تھے پر نظریں بلکل خالی تھیں۔ وہ پیڑھی پے بےجی کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اتنے میں باہر گلی میں عجیب سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کوئی دروازے کے پاس کہہ رہا تھا پیچھے ہو جائیں سب شہید کی سواری آ رہی ہے۔

بےجی تڑپ کر مولا خیر کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی۔ ابا جی سرخ آنکھوں اور رندھے گلے کی ساتھ باہر سے ہی بولے صفیہ بی بی مبارک ہو۔ شہید کی ماں بن گئی ہو آج تم۔ تیرا پتر واپس آگیا ہے۔ بےجی نے ڈبڈبائی نظروں سے فاریہ کی طرف دیکھا۔ کسی نے سفید چادر اس کے سر پر ڈال دی تھی اور وہ بت بنی ساکت کھڑی تھی کہ اس کا شہزادہ گہری نیند سو رہا تھا۔

کوئی نہ مجھے یہ بات بتائے

تجھ سے جدائی کی خبر سنائے

کیسے یہ یقیں ہوگا تو نہیں رہا ہے

کون تیرا ہونا دل سے مٹائے

پرچم میں لپٹا تابوت صحن میں رکھا تھا۔ اور صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ پانچوں بہنیں بھائی کے سرہانے بیٹھی تھیں۔ بےجی کا لال واپس گھر آگیا تھا۔ ایک الوہی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے وہ ماں کی آغوش میں سو رہا تھا۔ بےجی کا شاہو دھرتی ماں پر قربان ہوگیا تھا۔ بےجی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور لب پر ایک ہی فقرہ تھا۔ رب دا شکر اے۔  پتر میں اک شہید دی ماں وا۔

کبھی ہم پرچم میں لپٹے ہیں

کبھی ہم غازی ہوتے ہیں

جو ہوجاتی ہے ماں راضی

تو بیٹے راضی ہوتے ہیں