یہ 1990 کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت عروج پر تھی۔ ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب اور سندھ میں شیعہ سنی قتل و غارت گری معمول کا حصہ بن چکی تھی۔ فرقہ پرست تنظیمیں ایک دوسرے کے رہنماؤں کو چن چن کر قتل کر رہی تھیں۔ اس لڑائی میں سپاہ صحابہ کے بطن سے پھوٹنے والی تنظیم لشکرِ جھنگوی اور شیعہ تنظیموں میں سپاہِ محمد کے نام سب سے نمایاں ہیں جبکہ کئی دوسری تنظیمیں بھی اس کشت و خون کے کھیل میں پیش پیش تھیں۔
یہ تھے وہ حالات جن میں نواز شریف 1997 میں دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر بیٹھے اور ان کے بھائی اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ یوں کہہ لیجیے کہ جنرل ضیاء الحق کی پیداوار پاکستان کی فرقہ پرست تنظیمیں اور جنرل ضیاء کی سیاسی پیداوار 'مسلم لیگ نواز' ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے تھے۔ وجہ اس کی نظریاتی اختلاف سے کہیں زیادہ بین الاقوامی دباؤ اور ملک میں روز بروز بگڑتی law and order کی صورت حال تھی۔
2011 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں BBC نے لکھا تھا؛ لشکر جھنگوی کے سربراہ ریاض بسرا ایک ڈراؤنے خواب کی طرح پولیس حکام کے حواس پر سوار تھے۔ وہ ان کے لئے ایک ایسا چھلاوہ بن گئے تھے جو کبھی نواز شریف کی کھلی کچہری میں ان سے امداد وصول کر کے ان کا منہ چڑاتا تو کبھی اخبارات میں طویل ٹیلی فون کر کے اپنے بیانات لکھوا کر پولیس کے سینے پر مونگ دلتا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میاں نواز شریف ہر ہفتے اپنی رہائش گاہ پر کھلی کچہری لگایا کرتے تھے، اس کی تصاویر اکثر اخباروں میں بھی شائع ہوتی تھیں۔ ایک روز کھلی کچہری کے بعد تمام اخبارات کو ایک تصویر موصول ہوئی جس میں اسی کھلی کچہری میں ریاض بسرا میاں نواز شریف سے بھیس بدل کر مل رہا تھا اور کچھ امداد وصول کر رہا تھا۔
یہ پنجاب پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے چہرے پر زوردار طمانچہ تھا کہ ایک انتہائی مطلوب شخص جس پر قتل اور دہشت گردی کے متعدد واقعات کے پرچے تھے، وزیر اعظم کے گھر تک جا پہنچا تھا اور اس سے ہاتھ ملا رہا تھا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
لشکرِ جھنگوی کے خلاف نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں سخت ترین آپریشن شروع کیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 1997 کے پہلے دس ماہ میں 40 کے قریب لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کو پولیس انکاؤنٹر میں مارا گیا اور اسی دوران 16 سے 40 سپاہ صحابہ کے لوگ بھی اسی طریق پر مارے گئے۔ اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ عدالتیں ان تنظیموں کے سامنے بے بس تھیں۔ ناصرف یہ گواہان پر دباؤ ڈال کر انہیں خاموش رہنے پر مجبور کرتے تھے بلکہ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے کیسز سننے والے جج حضرات کو بھی دھمکیاں دی تھیں۔
ایسے واقعات بعد ازاں لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے ایک اور دہشت گرد ملک اسحاق سے متعلق بھی رپورٹ ہوئے جسے 123 مقدمات کے باوجود 2015 میں بالآخر ایک پولیس انکاؤنٹر میں ہی ٹھکانے لگانا پڑا تھا۔ اور جواباً ایک حملے میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے گھر کو ایک دھماکے سے اڑا کر انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔
دوسری طرف سے خوفناک جوابی کارروائیاں بھی جاری تھیں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے بہنوئی اشرف مارتھ نے بطور ایس ایس پی ملتان میں ان تنظیموں کے متعدد ڈیرے ڈھونڈ نکالے۔ نتیجتاً اشرف مارتھ کو 6 مئی 1997 کو قتل کر دیا گیا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کی زندگیاں بھی خطرے میں تھیں۔
تبھی نواز شریف کی زندگی پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جب 3 جنوری 1999 کو وزیر اعظم رائیونڈ میں واقع اپنی رہائش گاہ کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے وہاں پہنچنے سے محض چند منٹ قبل رائیونڈ کو جانے والی سڑک پر زوردار دھماکہ ہوا جس میں 4 افراد لقمۂ اجل بنے۔ ان میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا جو وزیر اعظم کے روٹ پر ڈیوٹی کے لئے معمور تھا۔
صرف دو ماہ بعد وزیر اعظم کا ہیلی کاپٹر فضا میں تھا اور شیخوپورہ اترنے جا رہا تھا کہ جب لینڈنگ سے کچھ ہی دیر قبل اس جگہ سے لشکر جھنگوی کا ایک کارکن راکٹ لانچر کے ساتھ پولیس نے پکڑا۔
یہ پہلی حکومت تھی جس نے افغانستان کی طالبان حکومت پر براہِ راست پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی پشت پناہی اور لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا۔
وزیر اعظم کے والد میاں شریف مرحوم نے ان تنظیموں کے رہنماؤں اور نواز شریف کے مابین جنگ بندی کی کوششیں بھی کیں لیکن یہ اکارت ہی گئیں۔ محقق عظمت عباس اپنی کتاب Sectarianism the Players & the Game میں لکھتے ہیں کہ حکومتی ایکشن کے باعث یہ لڑائی SSP اور شیعہ سے SSP اور حکومت کے درمیان جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1999 میں نواز حکومت برطرف ہوئے اور شریف خاندان کو پہلے جیل اور پھر ملک سے باہر بھیج دیا گیا لیکن لشکر جھنگوی نے بھی قسم کھائی ہے کہ وہ شریف خاندان کو جب بھی موقع ملے گا، hit کریں گے۔