اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے موجودہ حالات میں کسی بھی طرح کے سیٹ اپ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے برسر اقتدار پی ٹی آئی ہی سے نیا وزیراعظم لانے کا فیصلہ کر لیا ہے ، اس ہدف کے حصول کے لئے قومی اسمبلی میں مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری کر لی گئی ہے ، امکان ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کی قرارداد کی روشنی میں ایک بار پھر " کاکڑ فارمولا " عمل میں لایا جائے گا تاکہ وزیراعظم عمران خان کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق نئے قائد ایوان کو اعتماد کا ووٹ دلوانے کے لئے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بھی 15 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے اور یوں بووقت ضرورت عددی ہدف پورا کرنے کے لئے درکار ووٹوں سے بھی 2 ووٹ زیادہ حاصل ہو چکے ہیں۔ اپوزیشن کی اے پی سی میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو شریک کیا جائے گا جس میں اس بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا کہ ملک معاشی و دیگر حوالوں سے تاریخ کی جس بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے ، یہ نظام اس سے زیادہ کا متحمل نہیں ہوسکے گا۔
موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام بچانے کی غرض سے اے پی سی میں وزیر اعظم کے فوری استعفیٰ کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جائے گی اور امکان ہے کہ اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ میں بتایا جائے گا کہ اس مطالبے کو خود حکمران جماعت پی ٹی آئی کے متعدد اراکین قومی اسمبلی کی تائید حاصل ہوچکی ہے۔ مقتدر قوتیں ممکنہ طور پر وزیر اعظم سے کہیں گی کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں ہم آواز ہوچکی ہیں اور پوری قوم چونکہ آپ کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے لہٰذا سسٹم کو بچانے کے لئے اس مطالبے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا تاکہ ملک چلایا جاسکے۔ اس بات کا اگرچہ زیادہ امکان نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان " کاکڑ فارمولا " استعمال میں لائے جانے پر مقتدر قوتوں کا دباؤ قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینے پر آمادہ ہوجائیں گے بلکہ اس کی بجائے وہ اپنی پارلیمانی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی قیادت کے پاس جاکر مشورہ طلب کریں گے جہاں سے انہیں " ڈٹے رہنے " کا پیغام ملنے کی توقع ہے۔
البتہ استعفیٰ کے لئے مقتدر قوتوں کا دباؤ بڑھنے پر آنا پرست ضدی ' کپتان ' اسمبلی توڑنے جیسے اپنے آپشنز پر غور کر سکتا ہے۔ .ذرائع کے مطابق " نون " لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور کسی بھی طرح کے نئے سیاسی پارلیمانی بند و بست کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا ہے جبکہ دونوں ہی بڑی پارٹیاں حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کے حق میں بھی نہیں اور حکومت کے خلاف کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے الٹا خوفزدہ ہیں کہ ملک کی موجودہ بحرانی ، بالخصوص اس معاشی حوالے سے بدترین صورتحال میں اپوزیشن بھی شریک اقتدار ہوکر اپنی اہلیت کے حوالے سے بےنقاب ہونا نہیں چاہتی .
اس صورتحال میں مقتدر حلقوں نے فی الحال چہرہ بدلنے کی تجویز کی حمایت کے حوالے سے " اپرُوول " دے دی ہے جس کی طرف سے گرین سگنل مل جانے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ہے۔ جبکہ یہی وجہ ہے کہ ن لیگی رہنماؤں نے تحریک انصاف کو اپنا نیا لیڈر چننے کا مشورہ دیا ہے۔