’پاکستان میں ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کر کے آرام سے نہیں رہ سکتا‘

’پاکستان میں ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کر کے آرام سے نہیں رہ سکتا‘
ایک افریقی کی امریکہ کی پولیس کے ہاتھوں موت کوئی نئی بات نہیں تھی، امریکہ میں نسلی امتیاز روز مرہ کا معمول ہے، مگر وقت بھی چیزوں کا تعین کرتا ہے۔ اس دفعہ اس افسوسناک سانحہ نے نہ صرف امریکہ کے رہنے والے سیاہ فاموں کو بلکہ ساری دنیا کے باشعور لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے خلاف نہ صرف امریکہ میں مظاہرے ہوئے بلکہ ساری دنیا میں اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا۔ امریکہ میں تو پُرتشدد احتجاج ہوا اور کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

میرے نزدیک باشعور عوام اور خاص کر ماضی کے غلاموں کا احتجاج ہر طریقے سے جائز اور درست ہے اور میں ذاتی طور پر اپنے آپ کو ان کا ایک حصہ تصور کرتا ہوں۔

اگر آپ طبقات، آقا اور غلام کی تاریخ پر مختصرا بھی لکھنا چاہیں تو آپ کو ہزاروں دفتر درکار ہیں، اور پھر بھی تشنگی رہ جائے گی۔ اس سے پہلے کہ آگے چلیں یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ چند دہائیاں پہلے تک غلاموں کی تجارت ہوتی تھی،

آج جس طر ح جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اسی طرح غلام مرددوں اور عورتوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ یورپ ہی نہیں بغداد، قاہرہ، دہلی اور لاہور میں بھی۔ امریکہ میں ہی غلامی کے خاتمہ کے لئے خانہ جنگی ہوئی۔ اس دفعہ احتجاج میں ایسے مجسموں کو گرایا گیا جن کے بارے میں یہ خیال یا حقیقت تھی کہ ان کا لوگوں کو غلام بنانے یا غلاموں کی تجارت میں کسی قسم کا حصہ تھا-

مجسمہ [بت] گرانے کا کام نہ صرف امریکہ میں ہوا بلکہ انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے شہروں میں بھی ہوا۔ اس عمل نے دنیا بھر میں ایک بحث کو جنم دیا ہے۔ ہم برصغیر میں رہنے والے کو جو کہ 1947 تک انگریزوں کے غلام تھے اس تجربہ سے گذر چکے ہیں- اب سوال یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی یا دنیا میں غلاموں کی تجارت ماضی کی ایک حقیقت ہے، خواہ یہ کتنی ہی ہولناک، وحشت ناک یا انسانیت سوز تاریخ ہی کیوں نہ ہو۔

کیا ہم اس کو اپنی خواہش سے ماضی سے نکال سکتے ہیں؟

برصغیر میں رہنے والوں کی دلچسپ اور عجیب نفسیات ہے۔ مسلمان بچوں کو پڑھایا جاتا ہی ہے کہ محمود غزنوی بت شکن تھا لہذا ہر ایک کو بت شکن ہونا چاہئے۔ حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی دوسرے حملہ آور بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ تھا جو ہندوستان سے مال غنیمت لوٹ کر واپس چلا جاتا تھا۔

عظیم مورخ پروفیسر رومیلا تھاپر کی تحقیق کے مطابق تو اس نے مندر بنوانے میں مدد کی۔ ہندوستان میں تاریخ پڑھائی جاتی ہے کہ مغل یا اس سے پہلے حکمران غاصب[سامراجی] تھے وغیرہ وغیرہ۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ کانگرس کی حکومت میں ایک مسجد جسے بابری مسجد کا نام دیا گیا اس کے نیچے رام جنم بھومی کی دیو مالا بنا کر مسمار کردیا گیا، جس کے ردعمل میں پاکستان میں کئی مندروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ انگریزوں کے رکھے ہوئے شہروں، سڑکوں اور اداروں کے نام تبدیل کر دیے گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں آج بھی عام لوگ مال روڈ اور لارنس باغ ہی کہتے ہیں۔ میرے اپنے شہر کا معاملہ دلچسپ ہے اس کا نام لائلپور تھا مگر فوجی ڈکٹیٹرضیا الحق نے آتے ہی اس کا نام فیصل آباد رکھ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے لوگوں نے اس غلط تبدیلی کو ابھی تک دل سے قبول نہیں کیا اور آج بھی اسے لائلپور ہی کہتے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی مگر اس سے تاریخ اور نفسیات سمجھنے میں ضرور مدد ملے گی۔

انگریزوں نے جو ہندوستان سے لیبر دوسرے ملکوں میں تعمیراتی کام کے لئے بھیجی تھی وہ بھی تو ایک طرح کی غلامی ہی تھی۔ میں نے جیسے شروع میں ہی کہا کہ میں امریکہ میں رہنے والے سیاہ فاموں اور دنیا بھر میں باشعور لوگوں کے غلامی اور ہر قسم کے جبر کے خلاف مزاہمت میں ان کے ساتھ ہوں لیکن میں Negative apartheid کے خلاف ہوں اور اس سلسلہ میں نیلسن مینڈیلا کو اپنا استاد مانتا ہوں، جس نے ہر قسم کے انتقام کی مخالفت کی۔

ماضی کی انسان دشمن تاریخ کا مقابلہ کرنے کا بہتریں طریقہ میری نظر میں یہی ہے کہ ساری دنیا کے مظلوم اور باشعور منظم ہوں اور یہ عہد کریں کہ ماضی کی غلامی کو کسی کو دہرانے نہیں دیں گے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی غلامی کی نئی شکلیں موجود ہیں اور مسلسل جدوجہد کی اشد ضرورت ہے-

میرے نزدیک غلامی کے مجسموں کو اکھاڑنے کی بجائے ان کو رہنے دینا چاہئے اور اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہئے کہ تاریخ کے کون کون سے تاریک دور تھے اور ہمیں اپنی جدوجہد اور اتحاد سے اسے کسی کو دہرانے نہیں دیں گے- ہمارا نعرہ ہونا چاہیے ہم سب برابر ہم سب آزاد۔

آخر میں گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں کئی ٹن وزنی ماربل کے کراس کی تصویر دیکھ کر ایک واقعہ یاد آیا۔ میں رحمان صاحب کی دعوت پر نیا نیا ایچ آر سی پی کی ٹیم میں شامل ہوا تھا۔ ایک دن ہمارے دوست اور 'کلاس' کے سربراہ جوزف فرانسس آئے اور کہا کہ انہیں امریکہ سے ایک واقعہ کی شمالی علاقہ جات میں تحقیق کرنی ہے میرے ساتھ چلیں۔ میں رحمان صاحب سے اجازت لے کر اس کے ساتھ گلگت بلتستان چلا گیا۔

واقعہ یہ تھا کہ ایک پاکستانی مسلمان نے امریکہ میں سیاسی پناہ لینے کے لئے درخواست میں لکھا کہ گلگت کے ایک گاؤں میں عیسائی رہتے ہیں، جو وہاں پر چھپ کر عبادت کرتے ہیں اور اب اگر وہ واپس گیا تو اس کی جان کو خطرہ ہے۔ ہم اس دور دراز گاؤں میں پہنچے۔ اس کے گھر والوں اور گاؤں کے دوسرے لوگوں سے ملے، انہوں نے کہا کہ یہاں تو کوئی مسیحی نہیں ہے۔ واپس آکر جوزف نے یہ رپورٹ لکھ کر امریکہ بھیج دی مگر ایک فقرے کے ساتھ کہ پاکستان میں ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کر کے آرام سے نہیں رہ سکتا اور اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اب صلیب کے بارے میں آثار قدیمہ والے ہمیں بتائیں گے کہ حقیقت کیا ہے؟