یوں تو تقریباً روزانہ ہی کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پاکستان میں رونما ہو کر خبروں کی زینت بن جاتا ہے جو کہ وزیراعظم صاحب کے نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی یاد دلاتا رہتا ہے، مگر چند یوم قبل پشاور میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس پر دل سے آواز اٹھی کہ اس واقعہ پر دل سے نکلی آواز کو قلم کی زینت بنانا چاہیے۔
یہ دلخراش واقعہ تہکال تھانہ پشاور میں پیش آیا، جہاں ایک شخص کو انسانیت سوز تشدد کر کے زبردستی اس کے کپڑے اتارے گئے۔ اسی دوران تھانے میں موقع پر موجود افراد میں سے ہی کسی نے اس واقعہ کی ویڈیو بنائی جو کہ بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، اس ویڈیو میں تھانہ میں موجود پولیس کی وردی میں ملبوس افراد باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں جو کہ ایک شخص کے ساتھ مار پیٹ اور گالی گلوچ کرتے ہوئے، اس کے کپڑے زبردستی اتار کر اس کو ذلیل کر رہے ہیں۔
اس انسانیت سوز تشدد کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس سے ایک ہفتہ قبل 30 سالہ عامر نے ایس ایچ او کو گالیاں دے کر ویڈیو فیس بک پر لگائی گئی تھی، جبکہ بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ اس نے ایس ایچ او تہکال تھانہ، ایس ایس پی پشاور اور آئی جی کے پی کے کو گالیاں دیں اور وہ اس وقت نشہ میں تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نے پولیس افسران کو گالیاں دے کر ویڈیو وائرل کی تو اس کو پکڑنے سے پہلے یا پکڑنے کے بعد اس بات کا جاننا ضروری تھا کہ اس کے گالیاں دینے کی وجہ شوقیہ تھی، حالت نشہ تھی یا اس کے ساتھ کوئی اور زیادتی ان پولیس والوں نے پہلے بھی کی ہے جو یہ اس کا ردعمل تھا۔ اس کے بعد اس پر نشہ کرنے (الکوحل یا جو بھی نشہ اگر اس نے کیا ہوا تھا) اور سرکاری ملازمین کی توہین کرنے پر جو بھی دفعہ تعزیرات پاکستان کے تحت لگتی ہے وہ لگا کر معاملہ عدالت کے سپرد کرنا چاہیے تھا۔
مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے، جس کو تھوڑی سی طاقت بھی مل جاتی ہے وہی فرعون وقت بن کر انسانیت کی تذلیل پر اتر آتا ہے۔ اگرچہ محکمہ پولیس میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں مگر یہ طاقت کے نشے میں چور فرعون وقت ان اچھے افسران کا تشخص بھی برباد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عامر نے اس ذلالت کے بعد خودکشی کی کوشش بھی کی مگر وہ بچ گیا۔ اس بے بس شخص پر تشدد اور تذلیل کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایس ایس پی پشاور آفریدی صاحب نے کہا کہ متعلقہ پولیس افسران کو معطل کر کے ان کے خلاف تعزیرات پاکستان اور کے پی کے پولیس ایکٹ 2017 کے تحت مقدمات درج کر لیے گے ہیں۔
یہ تو ایک سانحہ ہے جو کہ ٹیکنالوجی کی برکت سے منظر عام پر آگیا ورنہ وزیراعظم صاحب کے نئے پاکستان میں بالعموم اور اس صوبہ میں جہاں ان کی حکومتی جماعت کی اکثریت ہے میں بالخصوص نہ جانے ایسے کتنے واقعات روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں، نہ جانے ایسے کتنے عامر سرکاری طاقت کے نشے میں چور بھیڑیوں کے انسانیت سوز بیہمانہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ کاش ایسے بدمست سانڈ جو کہ انسانیت اور اپنے محکمہ کے نام پر یقیناً سیاہ دھبا ہیں وہ کوئی بھی ایسا ظلم کرنے سے پہلے مظلوم کی جگہ خود کو، اپنے بھائی کو، بیٹے کو یا باپ کو رکھ کر سوچیں۔ اگر وہ خود میں سے کسی پر ایسا ظلم پسند نہیں کرتے تو ان کو ایسا انسانیت سوز فعل کرنے سے پہلے ہی شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔
پولیس کے ایماندار اور اچھے افسران کو بھی خود میں موجود عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے اور عدالت کے ذریعے ان کو کڑی سے کڑی سزا دلوانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ پولیس کی ذہنی تربیت اور اخلاقیات پر مشتمل ریفریشر کورسز گاہے بگاہے ہوتے رہنے چاہیے۔
ب ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ پولیس ملازمین کو قانون کے مطابق عدالت کڑی سے کڑی سزا دے گی اور محکمہ پولیس کےپی کے بھی ان کے خلاف غیرجانبدار تفتیش کرکے مظلوم کو انصاف دلائے گا۔ ایسے عناصر کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی کر کے ہی محکمہ کا تشخص اور وقار قائم رکھا جا سکتا ہے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔