ہیومن مِلک بینک کی افادیت کیا ہے؟

طویل عرصے تک ملٹی نیشنل کمپنیوں نے فارمولا ملک بیچنے کے لئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ یہ فارمولے ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں بلکہ زہر قاتل ثابت ہوئے۔ کئی لاکھ ننھی جانیں ان کمپنیوں کے لالچ کا شکار ہوئیں۔ اسی لیے 1992 سے عالمی ادارہ صحت اور یونیسف بریسٹ فیڈنگ عام کرنے کے لئے تحریک چلا رہے ہیں۔

ہیومن مِلک بینک کی افادیت کیا ہے؟

مڈوائفری اور میڈیکل کے طلبہ کو بہت ابتدا میں ہی حاملہ خواتین کی ہسٹری لے کر متوقع تاریخ ولادت یا ڈیو ڈیٹ نکالنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ استقرار حمل سے 40 ہفتے بعد کی تاریخ ہوتی ہے۔ حمل میں ہفتوں اور دنوں کا حساب کتاب رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ سفر کا آغاز صرف دو خلیاتی جرثومہ سے ہوتا ہے۔ پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ تین ہفتے بعد ابھی دل بنا نہیں ہوتا کہ دھڑکن نمودار ہو جاتی ہے۔ چوبیسویں ہفتے میں پھیپھڑے ایک کرشماتی سیال خارج کرنے لگتے ہیں جسے سرفیکٹنٹ کہتے ہیں۔ یہ کئی ہفتے تک بنتا رہتا ہے اور اس کے بغیر نظام تنفس ناکارہ رہتا ہے لہٰذا پیدائش ہونے کی صورت میں رحم کے باہر سانس لینا ناممکن ہوتا ہے۔ انسان کو سرفیکٹنٹ دریافت کئے ابھی 100 سال پورے نہیں ہوئے۔ 35 ہفتے تک اکثر بچوں میں کافی سرفیکٹنٹ بن چکا ہوتا ہے البتہ اعصابی اور دماغی نشوونما کا عمل ابھی جاری ہوتا ہے۔ اس کی تکمیل میں دو ہفتے لگ جائیں گے۔ 37 ہفتوں کے بعد آنے والے تین ہفتے بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ بچہ قد کاٹھ اور وزن تیزی سے بڑھائے گا۔ اب جادوئی مشین الٹراساؤنڈ کی مدد سے بچے کی لمبائی ناپ کر بھی تکمیل حمل کی تاریخ طے کی جاتی ہے۔

پیدائش کے بعد بچے کے مستقبل کا فیصلہ دو عوامل کریں گے۔ کیا وہ 37 ہفتوں سے کم یعنی پری میچور ہے اور کیا اس کا وزن ڈھائی کلو سے کم ہے؟

نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق عمر عزیز کی پانچویں بہار دیکھنے سے پہلے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں سالانہ لگ بھگ 50 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے 45 فیصد پیدائش کے دو ماہ میں چل بستے ہیں۔ ان معصوم فرشتوں میں 60 سے 80 فیصد پری میچور اور کم وزن والے ہوتے ہیں۔

ان بچوں میں سے 90 فیصد سب صحارا ریجن اور جنوبی ایشیا کے غریب ترین ممالک میں پیدا ہوتے ہیں۔

زندہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے کتنے پہلی سالگرہ سے قبل جاں بحق ہو جاتے ہیں، اسے انفینٹ مارٹیلیٹی ریٹ کہتے ہیں۔ 227 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی پوزیشن 209 ویں ہے جہاں زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار گل گوتھنوں میں سے 51 زندگی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ورلڈ فیکٹ بک پر اس ضمن میں سب سے پست ترین مقام پر افغانستان فائز ہے جہاں ہزار میں سے ایک سو ننھی جانیں داعی اجل کو لبیک کہتی ہیں۔

برطانیہ میں یہ شرح 3.8 ہے اور اسے مزید بہتر ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ہی 1900 میں یہ شرح 150 اور 1800 میں 329 تھی۔ اموات میں مسلسل کمی کے پس پشت سائنسی علم کا ارتقا اور اس کے عملی نفاذ کے علاوہ کچھ نہیں۔ دو ڈھائی سو سال قبل پوری دنیا کا یہی حال تھا۔ مرزا غالب کے 7 بچے عہد طفولیت میں جاں بحق ہوئے۔ مغل بادشاہ اکبر کے جڑواں شہزادے ولادت کے کچھ دن بعد فوت ہو گئے تھے۔ خود انگلستان کے بادشاہ ہنری ہشتم کے بہت سارے بچے مردہ پیدا ہوئے یا ولادت کے فوری بعد زندگی کی بازی ہار گئے۔ تاریخ کی کون سی اہم اور طاقتور شخصیت ہوگی جس نے یہ غم نہ جھیلا ہو؟

سرفیکٹنٹ تھراپی

امریکی صدر کینیڈی کے گھر ان کے قتل سے چند ماہ قبل ایک بیٹا پیدا ہوا جو صرف 34 ہفتے کا تھا اور جس کا وزن بس پونے دو کلو تھا۔ یہ بچہ پیدائش کے دو دن بعد اللہ کو پیارا ہو گیا۔ امریکی میڈیا میں اس بات کا خوب چرچا رہا اور نتیجے میں ایک جاپانی نیو نیٹو لوجسٹ اور ریسرچر فیوجی وارا حیوانی ذرائع یعنی گائے اور سور سے سرفیکٹنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ نومولود بچوں میں اس کے استعمال نے زندہ رہنے کے لئے 35 ہفتوں والی شرط کو ختم کر دیا۔ اس ایجاد نے کروڑوں ننھی منی جانیں بچائیں۔ دنیا میں ساڑھے اکیس ہفتے اور تین سو گرام کے بچے اسپتالوں سے خیریت سے گھر ڈسچارج ہوئے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ماں کا دودھ اتنا اہم کیوں ہے؟

انسانی دودھ کا کیمیائی تجزیہ آسان ہے لیکن اسے لیبارٹری میں تیار کرنا ناممکن ہے۔ ماں کا دودھ بچے کے لئے صرف غذا ہی نہیں بلکہ دوا بھی ہے اور اس میں موجود خاص مدافعتی پروٹین بچے کو آئندہ زندگی میں انفیکشن اور الرجی سے محفوظ بناتے ہیں۔ چھاتی سے براہ راست دودھ پینے سے بچے کی نفسیاتی، جذباتی اور شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایک طویل عرصے تک ملٹی نیشنل کمپنیوں نے فارمولا ملک بیچنے کے لئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ یہ فارمولے ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں بلکہ زہر قاتل ثابت ہوئے۔ کئی لاکھ ننھی جانیں ان کمپنیوں کے لالچ کا شکار ہوئیں۔ اسی لئے 1992 سے عالمی ادارہ صحت اور یونیسف بریسٹ فیڈنگ عام کرنے کے لئے فعال تحریک چلا رہے ہیں۔ ان اداروں کا حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ ماں بننے والی خواتین کو تنخواہ کے ساتھ کم از کم اٹھارہ ہفتے کی میٹرنٹی چھٹیاں دی جائیں تاکہ وہ گھر پر آرام سے بچوں کو اپنا دودھ پلا سکیں۔

ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مغربی ممالک میں عورتیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں یا اس کارگزاری میں مسلم خواتین پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں موجود اعداد و شمار ذرا مختلف کہانی سناتے ہیں۔

آنتیں گلنے کا عارضہ

قبل از وقت تولد ہوئے بچوں کی جان کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ ان کی آنتوں کے گلنے سڑنے یعنی نیکروٹائزنگ اینٹروکولائٹس کا ہے۔ اس موذی مرض میں بچوں کا پیٹ بری طرح پھول جاتا ہے، وہ شدید قبض یا ڈائریا سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کے پخانے میں خون رسنے لگتا ہے، آنتوں میں سوراخ ہو جاتے ہیں، وہ سیپٹک شاک میں جاتے ہیں۔ ان کو فوری آپریشن درکار ہوتا ہے۔ ان بچوں کی خاصی تعداد جی نہیں پاتی۔

اس تکلیف دہ پیچیدگی کی ذمہ داری انفینٹ فارمولا پر آتی ہے، بالخصوص جن میں گائے کا دودھ شامل ہو۔ اس مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ بچوں کو ماؤں کا دودھ میسر ہو یا پھر کسی عطیہ کنندہ سے حاصل دودھ پلایا جائے۔

انسانی دودھ کے بینک کی گائیڈ لائنز

تمام ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ملائیشیا اور ایران میں یہ بینک قائم ہیں جہاں خواتین رضاکارانہ طور پر دودھ عطیہ کرتی ہیں۔ ان تمام خواتین کا مکمل میڈیکل چیک اپ کیا جاتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ انہیں ایڈز، ہیپاٹائٹس، جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں یا خون کا سرطان تو نہیں۔ نشے کی عادی خواتین اور جسم فروشوں کا دودھ نہیں لیا جاتا۔ برطانیہ میں اس کار خیر کی کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ یہ سارا عمل نیک نیتی کے تحت کیا جاتا ہے۔

خون عطیہ کرنے والوں کی طرح ان ڈونرز کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور ان سے حاصل دودھ کی تھیلی پر مخصوص کوڈ سے یقینی بنایا جاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر شناخت کی جا سکے۔ یہ دودھ فرج میں چوبیس گھنٹے اور فریزر میں چھ ماہ تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

جن بچوں کو یہ دودھ درکار ہوتا ہے ان کے والدین کو باقاعدہ آگاہ کر کے اسی طرح اجازت لی جاتی ہے جیسے آپریشن یا خون لگانے سے پہلے لی جاتی ہے۔ دودھ فرج سے نکال کر بچے کی فیڈ میں دینے کے مراحل اسی طرح طے کئے جاتے ہیں جیسے خون کی بوتل لگانے کے ہوتے ہیں۔ ہمارے اسپتال میں یہ دودھ درج ذیل بچوں کو دیا جاتا ہے:

1۔ 32 ہفتے سے پہلے پیدا ہونے والے بچے۔

2۔ 1500 گرام سے کم وزن والے نومولود۔

3۔ 34 ہفتے سے پہلے پیدا ہونے والے کم وزن بچے جن کی پیدائش سے پہلے الٹراساؤنڈ سے خون کا دوران کم ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔

4۔ 32 ہفتے سے زیادہ عمر میں پیدا ہونے والے بچے جن میں آکسیجن کی کمی ہوئی اور جنہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑی۔

5۔ وہ تمام نومولود جو آنتیں گلنے کی بیماری سے صحت یاب ہو رہے ہوں۔

6۔ نومولود بچوں کی طب کے ماہرین یعنی کنسلٹنٹ نیو نیٹو لوجسٹ کی صوابدید پر۔

برطانیہ کے نظام میں کنسلٹنٹ نیو نیٹو لوجسٹ بنتے بنتے کم از کم 28 سال کی تعلیم اور تربیت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ پوری دنیا کی طرح برطانیہ میں بھی میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا سب سے دشوار کورس سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں طب کے شعبے کو اپنی پیشہ ورانہ حدود میں دخل اندازی کی مزاحمت کرنی ہو گی اور اپنی خودمختاری کو یقینی بنانا ہو گا۔