کرونا وائرس: متاثرہ مریضوں کے علاج کے لئے ہسپتال جاتی لیڈی ڈاکٹر پر پولیس کا بدترین تشدد

کرونا وائرس: متاثرہ مریضوں کے علاج کے لئے ہسپتال جاتی لیڈی ڈاکٹر پر پولیس کا بدترین تشدد
کرونا وائرس کے خلاف دنیا حالت جنگ میں ہے۔ اور اس جنگ میں فرنٹ لائن پر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہی وہ سپاہی ہیں جو اس وقت اس مہلک دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور پھر چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو وہاں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس سب سہولیات کی کمی اور مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر شدید دباو میں دن رات کام کر رہے ہیں۔

ایسے میں ان مسیحاوں کے ساتھ انسانیت سوز واقعات اور وہ بھی تب جب وہ اپنے فرائض سر انجام دینے ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہوں، انتہائی درد ناک ہے۔ ایسا ہی دلخراش واقعہ بھارت کے دارالخلافہ نئی دہلی میں ہیش آیا ہے جس میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو پولیس نے سر عام تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس واقعے نے   ہر انسان کو دکھی کر دیا ہے۔

  بھارت کی ریاست تیلنگانا میں یہ حادثہ آدھی رات کے وقت پیش آیا جب 32 سالہ ڈاکٹر چترانگدا کوشیل (فرضی نام) ہسپتال سے ایمرجنسی کال ملنے کے بعد ہسپتال جا رہی تھیں۔ پولیس نے انہیں روکا۔ ایک پولیس اہلکار نے ان سے معنی خیز لہجے اور الفاظ میں پوچھا کہ وہ آدھی رات کو کہاں جا رہی ہیں۔ جس پر جب ڈاکٹر چترانگدا نے انہیں اپنے ڈاکٹر ہونے کے بارے آگاہ کیا۔انہوں نے پولیس افسر کو اپنا آئی ڈی بھی دکھایا تو وہ اسنے چھینتے ہوئے کہا کہ اسے کیا معلوم وہ آدھی رات کو ہسپتال جار ہی ہیں یا پھر اپنے کسی یار سے ملنے۔

ڈاکٹر چترانگدا کہتی ہیں کہ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا انکے ساتھ انکی ساتھی ڈاکٹر بھی تھیں۔ انہوں نے مدد کے لئے ہسپتال میں کال ملانی چاہی تو پولیس اہلکار نے ان سے موبائل فون بھی چھین لیا اور گالیاں دیتے ہوئے انکے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔ جس پر متاثرہ ڈاکٹر نے اس پولیس اہلکار کو واپس تھپڑ دے مارا۔ اس کے بعد وہاں موجود تمام پولیس اہکاروں نے مل کر خاتون ڈاکٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بالوں سے کھینچتے ہوئے اپنی جیپ میں ڈالا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بندوقوں کے بٹوں سے ٹانگوں پر مارا گیا جب کہ اس دوران انکے جسم کے نازک حصوں کو نوچا گیا۔ 

اسکے بعد انہیں اسی جیپ میں ڈال کر تھانے لے جایا گیا، جہاں انہیں زمین پر بیٹھایا گیا۔ ان کا شور شرابہ سن کر وہاں موجود سینیئر پولیس افسر نے معاملہ جانا تو اسنے انکو اس پولیس اہلکار کے چنگل سے چھڑوایا اور انہیں ہسپتال بھیجا۔

ڈاکٹر چترانگدا کہتی ہیں کہ اسکے بعد زخمی حالت میں انہوں نے 12 گھنٹے ڈیوٹی کی ، جس کے بعد انہوں نے اپنی بہن کو بتایا جو کہ اسی ہسپتال میں ڈاکٹر تھیں اور اس واقع کے وقت ڈیوٹی پر موجود تھیں۔ انکی فیملی پولیس کے پاس گئی تاکہ ثبوت مل سکیں لیکن پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔

انہیں معلوم ہوا کہ کسی راہگیر نے واقعے کی فوٹیج بنا لی تھی اور سوشل میڈیا پر ڈالی ہے۔ اس سے ویڈیو حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درخواست جی جس پر پولیس نے اس ہسپتال کی انتظامیہ کو بیچ میں ڈال کر ان پر دباو ڈالتے ہوئے باور کرایا کہ اگر وہ یہ کیس واپس نہیں لیں گی تو ان کی زندگی مزید خراب ہوسکتی ہے۔ جس پر ڈاکٹر نے ملوث اہلکاروں کی جانب سے میڈیا کے سامنے  ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔ انکا یہ مطالبہ پورا نہ کیا گیا بس ایک میڈیم سوری کے بعد درخواست واپس ہوگئی۔ 

ڈاکٹر چترانگدا کی بہن کہتی ہیں کہ میرے لئے یہ شدید اذیت کا باعث ہے کہ میری بہن یہ کبھی نہیں بھلا پائے گی کہ اسے سڑک پر تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔