اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے پاکستان کے حساس اداروں پر جو الزامات لگائے ہیں اس سے وطن عزیز کے سیاسی بحر میں تلاطم پیدا ہو چکا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت، جسٹس طارق محمود، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس ارباب طاہر شامل ہیں انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ حساس ادارے ان کے کام میں مداخلت کرتے ہیں، اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ 8 ججوں پر مشتمل ہے، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگ زیب کو ملا کر۔ باقی یہ 6 جج جن کے نام سطور بالا میں لکھے ہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے تو کوئی الزام ابھی تک نہیں لگایا مگر ان کے کچھ فیصلے بھی ہئیت مقتدرہ کے خلاف تھے۔ اب صرف چیف جسٹس عامر فاروق رہ جاتے ہیں جو ہئیت مقتدرہ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ان کا کردار بھی عجیب سا ہے۔ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان عمران خان اور مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف ان پر عدم اعتماد کر چکی ہے مگر پھر بھی چیف جسٹس عامر فاروق صاحب بڑے دھڑلے سے ان کے مقدمات سنتے ہیں اور بنچ سے الگ بھی نہیں ہوتے۔ وہ اپنے ساتھی ججوں کا بھی اعتماد کھو چکے ہیں اور ان کو تحفظ دلانے میں ناکام رہے ہیں۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کر کے توہین عدالت کی گئی تھی تب بھی چیف جسٹس عامر فاروق اپنی عدالت کا وقار بحال کرانے میں ناکام رہے تھے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ان 6 معزز ججوں نے حساس اداروں پر یہ الزام عائد کیا ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹیریان وائٹ کیس میں بھی مداخلت کی بات کی جا چکی ہے۔ اس سے پہلے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی پانامہ کیس کے حوالے سے حساس ادارے کی مداخلت پر الزام لگا چکے تھے جس پر ان کو برطرف کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے ان کی پنشن بحال کی ہے۔ امید ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی بھی داد رسی کریں گے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس واقعہ نے پاکستان کے سارے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے حساس اداروں کی قابلیت اور ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ایسے حالات میں جب ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر اٹھ رہی ہے، ایران اور افغانستان کی سرحدیں محفوظ نہیں، بھارت سے بھی خطرات لاحق ہیں مگر ہمارے حساس ادارے جن کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت ہے، ملک دشمنوں پر نظر رکھنا ہے، دہشت گردی کی کارروائیوں کو قبل از وقت بے نقاب کر کے دہشت گردی کی روک تھام کرنا ہے اور دہشت گردوں کو گرفتار یا ہلاک کرنا ہے، وہ اپنا اصل کام چھوڑ کر 8 فروری کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے، سینیٹ کے انتخابات اپنی مرضی سے کرانے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کروانے اور پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو کچلنے پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ بہت ہی افسوس ناک رویہ ہے۔ اس سے پوری دنیا میں وطن عزیز کا وقار مجروح ہوا ہے۔
بدقسمتی سے پوری دنیا پہلے بھی پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی۔ 75 سالوں میں چار بار فوجی حکومتوں اور ہر انتخابات کے بعد آنے والی سیاسی حکومت کے بارے میں پوری دنیا میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہ حکومت راولپنڈی کی آشیرباد سے آئی ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت جب چاہتی ہے سیاسی حکومت کو بدل دیتی ہے۔ اب اس تازہ ترین صورت حال کے بعد یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پر بھی ہئیت مقتدرہ اثرانداز ہو رہی ہے۔ پاکستان کی وکلا تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اب بہت سنجیدگی سے اس صورت حال کا جائزہ لینا ہو گا۔ سول سوسائٹی کا بڑا حصہ بُغض عمران خان میں مبتلا ہے مگر ان کو اپنا یہ بغض بالائے طاق رکھ کر پاکستان میں حساس اداروں کے غیر قانونی کردار کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بار ایسوسی ایشنز، صحافی تنظیموں کو بھی میدان میں آنا ہو گا۔
دیگر سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے تو کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ وہ ان حساس اداروں کی سہولت کاری سے ہی اقتدار میں آئے ہیں ورنہ 8 فروری کو پاکستان کے عوام نے تو اپنا فیصلہ بذریعہ ووٹ سنا دیا تھا۔ مگر طاقت کے اصل مراکز نے جس طرح عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہے اور عوام کو بتایا کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں اور وہی ہو گا جو ہم چاہتے ہیں، تمہاری پرچی اور رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وقتی طور پر طاقت کے اصل مراکز یہ سب کرنے میں کامیاب تو ہو چکے ہیں مگر عوام میں جو ان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے اس کا ادراک یا تو ان کو نہیں ہے یا پھر عوامی نفرت کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ یہ روایت بہت خطرناک ہے۔
اب ساری نظریں قاضی القضاء فائز عیسیٰ صاحب پر ہیں کہ وہ اس موقع پر کیسا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وہ کوئی مثالی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قدرت نے ان کو ایک موقع اور دیا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ مؤرخ ان کو کس نام سے یاد رکھے گا، رہے نام اللہ کا!