جب سے ترک ڈرامہ ارطغرل پاکستان میں نشر ہونا شروع ہوا ہے قوم اس وقت بیانیوں کی جنگ میں الجھی ہے۔ تاریخ دان مسلسل بتا رہے ہیں کہ تاریخی حوالوں سے یہ ڈرامہ مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسری جانب برسر اقتدار سیاسی قیادت کے نزدیک یہ اسلامی تاریخ کا شاہکار ہے۔ حتیٰ کہ فنکار برادری بھی اس کے بارے میں رائے دیتی ہوئی نظر آئی ہے لیکن اب تک ان کی رائے بھی ڈرامہ سچا ہے یا جھوٹا، ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں اور انڈسٹری کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں کے گرد گھومتی رہی ہے اور تکنیکی لحاظ سے اس کے مختلف پہلووں پر کوئی سیر حاصل بحث نہیں کی گئی۔
تاہم اب ملک کی سینئر اداکارہ ثاںیہ سعید اور اور اپنی جان دار اداکاری کے لئے مشہور صبا قمر کی جانب سے ان پہلووں پر بات کرتے ہوئے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ثانیہ سعید نے ان بحثوں کا بھی جواب دیا جو کہ اس ڈرامے کے حوالے سے زبان زد عام ہیں اور ان پر انکی رائے باقی فنکاروں سے مختلف اور نہایت تکنیکی رہی۔ تاہم انہوں نے اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ معاملہ یہ نہیں کہ ارطغرل کیوں دکھایا جا رہا ہے۔ بات یہ ہے کی آیا وہ بجٹ جس سے ارطغرل پاکستان میں لا کر نشر کیا گیا پی ٹی وی کے پاس پہلے سے موجود تھا؟ اور اگر تھا اور فرض کیجئے ارطغرل کو پاکستان میں نشر نہ کرنے کا فیصلہ ہوتا تو وہ بجٹ کہاں خرچ ہوتا؟ کیا یہ فیصلہ کسی سسٹم کے تحت کیا گیا ہے؟ یا پھر اس کے پیچھے بس یہی امر کار فرما تھا کہ چونکہ وزیر اعظم کی خواہش تھی اور انہوں نے کہہ دیا ہے سو بس ایک ڈرامہ منگواؤ اور دکھانا شروع کردو۔ ہمیں پی ٹی وی کے اس ڈرامے پر اخراجات کے سسٹم پر سوال پوچھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں وضاحت طلب کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ انگلیاں اٹھانے کی۔
دوسری جانب صبا قمر کا کہنا تھا کہ ہمیں دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو نکھارنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ بات صاف ہے جس کے پاس ہنر ہوگا وہ آخر کار چمک اٹھے گا۔ یہ بحث ہی غلط ہے کہ کسی اور کا ڈرامہ دکھانے سے ہم مارے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیسہ اور شہرت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ کا ایک بھی ڈرامہ ہٹ ہوجائے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنے غیر ملکی ڈرامے دیکھا رہے ہیں۔
ثانیہ سعید نے اس ڈرامے کے ہٹ ہونے کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس ڈرامے کے ہٹ ہونے کی وجہ معمول کے ڈراموں سے منفرد ہونا اور کہانی بیان کرنے کا اچھوتا انداز ہے۔ جیسے پرانے زمانے میں دور دراز سے آنے والے تاجروں اور مسافروں کی جانب سے اپنے دیسوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں ویسے ہی اب بھی کسی اور نگر کی کہانیاں مشہور ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اسی ملک میں کہانی گھر گھر کی، کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی اور دیگر ایسے ڈرامے بھی مقبول رہ چکے ہیں۔ دوسرے نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ پاکستانی ناظرین کو اس ڈرامے میں مرد اور عورت مختلف انداز میں اور کردار میں نظر آرہے ہیں۔ ایک معروف حقوق نسواں کی کارکن کی رائے کے حوالے کو گفتگو میں شامل کرتے ہوئے کہ جس میں ان کا کا کہنا تھا کہ کیوں کہ اس ڈرامے میں مرد مضبوط اور خواتین پردے میں ہیں اس لئے یہ پاکستانیوں کو پسند ہے، ثانیہ کا کہنا تھا کہ یہاں جو عورت دکھائی گئی ہے وہ پردے میں تو ہے تاہم وہ خنجر بردار ہے اور خود کفیل بھی ہے۔
وہ امور سرکار میں بھی مدخل ہے اور اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ اسی طرح مرد مضبوط تو ہیں تاہم وہ خواتین کو لے کر اپنے محبت کے جذبات کو ظاہر کرنے میں کوئی آر نہیں سمجھتے نہ ہی وہ اپنے ساتھیوں کے جنگ میں قتل ہوجانے پر آنسو بہانے میں کوئی اختصار سے کام لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے کی پروڈکشن اچھی ہے کہانی کو عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے اور پھر بطور مسلم شناخت ہم ناظرین اس کہانی سے اپنے آپ کو جڑا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔
ثانیہ بھی اس حوالے سے متفق ہیں کہ ہمیں اپنے کام کو مزید نکھارنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ البتہ جس طریقے سے پی ٹی وی کے ذریعئے یہ ڈرامہ ملک میں نشر کیا گیا اس پر جو سوالات انہوں نے پوچھے انکے جوابات پاکستان میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے بہت سے مسائل کا حل بھی ہیں۔