Get Alerts

'ارطغرل کے دور کے حقائق غیر واضح ہیں، ڈرامے میں تخیل کا استعمال کیا: ڈرامہ ارطغرل کے مصنف کا اعتراف

'ارطغرل کے دور کے حقائق غیر واضح ہیں، ڈرامے میں تخیل کا استعمال کیا: ڈرامہ ارطغرل کے مصنف کا اعتراف
آج کل پاکستان میں ہر طرف ارطغرل کا شہرہ ہے۔ جسے بھی پوچھیں وہ ارطغرل ڈرامے کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے رکھتا ہے۔ پاکستانی ناظرین کی اکثریت اسے  سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ترکی ڈرامہ ’ ارطغرل‘ کا خوب چرچا ہے۔  ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ یہ اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی کہانی ہے اور پاکستانیوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کرانے کے لئے یہ ڈرامہ ضرور دیکھنا چاہیے اور اسی نسبت سے ڈرامے کو عقیدت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے تو دوسری جانب تاریخی حقائق سے دور گھڑے گئے ایک کردار کو اسلامی تاریخ سے جوڑنے پر تاریخی دعووں کے ساتھ ڈرامے پرتنقید کی جا رہی ہے۔

لیکن اب ڈرامے کے پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر مہمت بزداگ کا ایک انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ڈرامے کی تخلیق کے سفر ، اسکی کامیابی اور اس کے تاریخی حقائق کے حوالے سے بات کی ہے۔ 

مہمت بزداگ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں اس ڈرامے کی کامیابی پر حیران کن طور پر خوش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ترکی کے فنکار مل کر ایسا کام کریں جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا۔

 

انہوں نے ترک نیوز ایجنسی کو انٹرویو کے ایک سوال کے جواب میں  ڈرامے کی تخلیق کے سفر کے بارے میں بتایا کہ تاریخ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں ایک ایسا ڈراما بنانے کا خیال آیا جس میں دکھایا جائے کہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد کیسے رکھی گئی۔ انہوں نے بتایا اس تصور کو ذہن میں رکھ کر 5 سیزن کی کہانی تیار ہوئی اور اب وہ کورلش عثمان کی شکل میں جاری ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ  ایک ہزار سے زائد افراد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میرا بیٹا بہت بیمار ہوگیا اور ہم اسے ایمرجنسی سروسز میں لے گئے، مگر وہاں بھی میں نے اسکرپٹ پر کام جاری رکھا، میں روزانہ 20 گھنٹے کام کرتا ہوں۔

ابھی بھی کورلش عثمان کی شوٹنگ کرونا وائرس کی وبا کے دوران بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری ہے اور محمد بوزداغ کا کہنا تھا کہ کورلش عثمان مزید 5 سے 6 سال تک جاری رہے گا اور یقیناً اپنے عہد کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہوگا۔

اس ڈرامے کے تاریخی حقائق پر مبنی نہ ہونے کے تنازعہ کے  حوالے سے سب سے سلگتے ہوئے سوال  کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ ارطغرل کے حوالےسے تاریخی  حقائق  کے خلا موجود تھے۔ 

انہوں نے  اعتراف کیا کہ اس عہد کے حقائق زیادہ واضح نہیں تھے اور ان میں خلا تھے اور اس خلا کو بھرنے کے لیے  ذہنی اختراع اور تخیل کا استعمال کیا گیا۔ انکا دعویٰ ہے کہ حقائق میں ذاتی تخیل کی پیوند کاری کے باوجود  اس عہد کی حقیقت اور اسلام کی روح کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے انکا کہنا تھا کہ  دنیا بھر میں تاریخی ڈرامےایسے ہی بنتے ہیں۔ 

دوسری جانب تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس ڈرامے میں مصنف نے اسلامی روح کو چھائے ہوئے دکھانے کے لئے تاریخی حقائق کو کافی حد تک مسخ کر کے ارطغرل کا  ایک افسانونی کردار گھڑا ہے۔

‏ترکی کی تاریخ پر ایک بڑا علمی کام چار ضخیم جلدوں پر مشتمل Cambridge History of Turkey ہے، جس کی تدوین میں ترک اور عثمانی تاریخ پر اتھارٹی پروفیسر ثریا فاروقی معاون مدیر کے طور پر اور ان کے علاوہ دیگر ترک مؤرخین بھی شامل تھے۔ اس کی پہلی جلد میں جو 1071 سے 1453 کے زمانے سے متعلق ہے، ارطغرل کا نام صرف ایک جگہ، صفحہ 118 پر، مذکور ہے۔ مصنف کے نزدیک ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور اس کی موجودگی کا پتہ اس کے بیٹے عثمان کے ایک سکے سے چلتا ہے۔ مصنف کےالفاظ ہیں:

We know nothing about the life of Ertugrul, and his existence is independently attested only by a coin of his son Osman


‏اردو میں اس سلسلے میں سب سے زیادہ معروف اور پڑھی جانے والی کتاب ڈاکٹر محمد عزیر کی دو جلدوں پر مشتمل ’دولتِ عثمانیہ‘ ہے۔ مشہور علمی ادارے دارالمصنفین، اعظم گڑھ، کی شائع کردہ اس تاریخ کا دیباچہ سید سلیمان ندوی نے لکھا اور اس  کتاب کا مقصد مسلمانانِ ہند کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔‏ ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں کہ سلیمان شاہ اور ارطغرل غیر مسلم تھے اور قبیلے کا پہلا شخص جس نے اسلام قبول کیا ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا۔ اس بات کی طرف توجہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر فراز انجم نے دلائی ہے ۔

حتیٰ کہ ارطغرل کے باپ کا نام سلیمان شاہ ہونے کے حوالے سے بھی شکوک پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کے ایک حقیقی کردار ہونے کی واحد شہادت عثمان کے نام کا ایک سکہ ہے جس میں اس کا نام ’عثمان بن ارطغرل بن قندوز الپ‘ لکھا گیا ہے۔ سلیمان شاہ کو پہلی مرتبہ ارطغرل کا باپ 1465 میں لکھے گئے انوری کے ’دستورنامے‘ میں کہا گیا ہے۔