آپ کو مطالعہ کا شوق ہو یا نہ ہو، کبھی نہ کبھی سکول یا کالج میں آپ نے غلام عباس کا افسانہ "اوورکوٹ" ضرور پڑھا ہو گا، اس افسانے میں غلام عباس نے ایک ایسا نوجوان دکھایا ہے جو ظاہری طور پر انتہائی خوش پوش ہے۔ غلام عباس لکھتے ہیں کہ "جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلو بند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے، نو تھینک یو کہہ کر اسے بھی ٹال دیا"۔ لیکن افسانے کے اختتام پر جب ظاہری چمک دمک والا اوور کوٹ اتارا جاتا ہے تو اصلیت سامنے آتی ہے۔
جسے غلام عباس نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے، جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا، اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سر کی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔ اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلو بند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔ نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا۔ البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔
سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔
اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔ بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
یہ دونوں مناظر ہمارے معاشرے کی منافقت کو اچھی طرح بیان کرتے ہیں لیکن مجھے اس افسانے کو پڑھنے کے بعد پاکستان کے دو طبقات کا خیال آتا ہے۔ پہلے تو ہمارے مولوی، ملا اور مولانا حضرات کا خیال آتا ہے، جو برسوں سے مذہب کا اوور کوٹ پہنے ہوئے ہیں اور آخر وہ اوور کوٹ کیوں نہ پہنیں، یہ اوور کوٹ انہیں آزادی دیتا ہے کہ وہ اس کے نیچے مدارس میں ہونے والے مظالم کی میل چھپا سکیں۔ اسی کی مدد سے جدید علوم سے لاعلمی پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے، اس اوور کوٹ میں ایسی طاقت ہے کہ کوئی سوال کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور اگر کوئی ناہنجار سوال کر بھی لے تو جواب کی بجائے اس سے جوابی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں کہ بتاؤ کیا تم نماز پڑھتے ہو کیا روزہ رکھتے ہو؟
ابھی کچھ دن پہلے ایک مفتی صاحب نے غرور بھرے لہجے میں وزیر اطلاعات سے پوچھا کہ آپ نے کتنے روزے رکھے اور کتنی نمازیں پڑھیں؟ اب مفتی صاحب سے کوئی پوچھے۔ لیکن آخر مفتی صاحب سے کوئی کیسے کچھ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ انسان کی عبادات اور حقوق اللّٰہ کا کسی دوسرے انسان کو سوال کرنے کا کیا حق اور جب اللّٰہ رب العالمین نے خود فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا تو پھر کسی انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی سے مذہبی فرائض سے متعلق سوال کرے۔
دراصل ہمارا نام نہاد مذہبی طبقہ ظاہری طور پر مذہب کا اوور کوٹ پہنے لوگوں کے ایمان کے فیصلے کرتا ہے جبکہ درحقیقت اوور کوٹ کے نیچے بغض و عناد، نفرت، کینہ پروری، کم علمی، غیبت، بہتان تراشی اور ہٹ دھرمی کی میل ہے جو تہہ در تہہ جمی ہوئی ہے، وہ تو پھر مفتی صاحب تھے ہمارے ہاں تو جو بھی پانچ وقت نماز پڑھ لے یا حج کی سعادت حاصل کر لے وہ یہی سمجھتا ہے کہ اب مذہب کی ٹھیکیداری اس کے پاس ہے وہ جسے چاہے مسلمان قرار دے اور جسے چاہے کافر قرار دے۔
دوسرا طبقہ جو غلام عباس کا افسانہ پڑھنے کے بعد ذہن میں آتا ہے وہ دور جدید کا ڈیجٹل طبقہ یا سوشل میڈیائی طبقہ ہے جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر دو چار مائیکرو بلاگ پڑھنے کے بعد ماہرِ سیاسیات کا اوور کوٹ پہنے خود کو سیاست کا عالم تصور کرتے ہیں یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ لوگ سیاسی گُرو کا اوور کوٹ پہن لیتے ہیں اور اسی قماش کے لوگوں نے پاکستانی سوشل میڈیا کو بد تمیزی اور گالی گلوچ سے بھر رکھا ہے۔ ان لوگوں کا اوور کوٹ اترنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے پاس سیاست کا بنیادی علم بھی نہیں بلکہ ان میں سے شائد ہی کسی نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو۔ مذہبی طبقہ اور ڈیجٹل طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ نیم حکیم خطرہ جان، نیم مُلا خطرہ ایمان کی بہترین مثال ہیں ان سے اللّٰہ بچائے۔ امین