رنگ روڈ اسکینڈل کے مرکزی کردار اور وزیر اعظم کے سابقہ معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستان زلفی بخاری آج صبح 5 بجے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد سے دبئی روانہ ہو گئے ہیں۔
رواں ماہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے اسکینڈل میں زلفی بخاری اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے نام سہر فہرست تھے جس کے بعد زلفی بخاری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اس سکینڈل سے کوئی تعلق نہیں جبکہ میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو رہا ہوں تا کہ کیس کی صاف شفاف تحقیقات ہو سکیں۔
رنگ روڈ سکینڈل کے مطابق 2017 میں اس وقت کی پنجاب حکومت نے راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40 کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس سلسلے میں تمام ضابطے کی کارروائی مکمل ہوگئی تھی تاہم 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت برسراقتدار آگئی اور یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا لیکن گزشتہ برس یہ منصوبہ اچانک فعال ہوا اور اس میں 26 کلومیٹر کا اضافہ کردیا گیا۔ اس منصوبے سے کم از کم 10 ہاؤسنگ پراجیکٹس کو غیر ضروری طور پر اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔
معاملے میں کرپشن کی خبر ملنے پر وزیر اعظم نے اس کا نوٹس لیا اور کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمود احمد کو ہٹا کر سید گلزار حسین شاہ کو تعینات کردیا۔ وزیر اعظم نے انہیں تحقیقات کا حکم دیا، اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے کمیٹی بنائی۔
کمیٹی نے اپنی پہلی رپورٹ میں چند سیاسی شخصیات جن میں زلفی بخاری، غلام سرور خان ، ریٹائرڈ فوجی اور سول بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچانے کا الزام بھی عائد کرتے ہوئے بتایا گیا کہ رنگ روڈ کے 2017 میں منظور شدہ نقشے میں تبدیلی کے ذریعے کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور بااثر سیاسی شخصیات کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود احمد اور معطل ہونے والے لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کے لیے زمین کے حصول کی غرض سے غلط طریقہ کار سے دو ارب 30 کروڑ کا معاوضہ ادا کیا اور اراضی حاصل کرتے ہوئے سنگ جانی کے معروف خاندان کو فائدہ پہنچایا۔
تفتیش میں رنگ روڈ راولپنڈی سکینڈل یاور بخاری کے بعد زلفی بخاری کے فرنٹ مین کی کال لیک کا انکشاف بھی ہوا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمود احمد اور دیگر اہلکاروں نے 2017 کی نیسپاک کی جانب سے بنائی جانے والی الائنمنٹ میں تبدیلی کر کے اس میں اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کو غیر قانونی طور پر شامل کرکے اردگرد کے علاقوں میں درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچایا تھا جس میں کئی میں وہ بے نامی دار مالک بھی تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل حکومت نے شہباز شریف پر بیرون ملک جانے پر پابندی لگوائی تھی۔ جبکہ زلفی بخاری نے بھی کہا تھا کہ میں بیرون ملک نہیں جاؤں گا۔