پاکستان تحریک انصاف اس وقت بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ وفاقی حکومت پنجاب کی کٹھ پتلی نگران حکومت اور ان کے سہولت کار تحریک انصاف کے کارکنوں پر ریاستی جبر کی انتہا کر چکے۔ ظلم و ستم کا بازار گرم ہے۔ سیاسی کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا ریا ہے۔ تحریک انصاف کے مطابق ان کے 25 کارکنوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ظل شاہ ایک استعارے کا روپ دھار چکا ہے۔ تحریک انصاف کے قائدین ایک ایک کر کے جماعت چھوڑ رہے ہیں۔ 9 مئی والے دن جو کچھ ہوا اس کے بعد کارکنوں کو لاوارث چھوڑ کر قائدین جماعت چھوڑ کر ثابت کر رہے ہیں کہ وہ سب چوری کھانے والے طوطے تھے کوئی انقلابی نہیں تھے۔
ایک وقت تھا زمان پارک کے باہر خمیہ بستی آباد تھی اور ایک چھوٹا سا قصبہ بن چکا تھا مگر وہاں اب کوئی نہیں ہوتا۔ جماعت میں باقی رہ جانے والے قائدین جو ابھی تک عمران خان کے ساتھ وفا کر رہے ہیں روپوش ہیں اور کارکنوں کو بھی عمران خان نے وہاں آنے سے منع کر دیا ہے تاکہ پولیس مزید گرفتاریاں نہ کر سکے جو موجودہ حالات میں بہترین فیصلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے مزاحمت کی تاریخ مرتب کی ہے۔ ماضی میں بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جو مزاحمت کی تھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان تمام صحافیوں اور دانشوروں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو ان کو برگر کلاس کہتے تھے مگر تحریک انصاف کے قائدین کی بے وفائی نے جماعت پر گہرے گھاؤ لگائے ہیں۔
ایک سال قبل مبینہ آپریشن رجیم چینج کے بعد وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد عمران خان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیں اور قومی اسمبلی میں ایک طاقتور حزب اختلاف کا کردار ادا کریں مگر عمران خان نے یہ بات نہ مانی۔ پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت تھی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ تھے۔ وہ ایک جہاں دیدہ سیاست دان اور ہئیت مقتدرہ کو عمران خان سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو چند مشورے دیے تھے۔ ایک تو پنجاب حکومت توڑنے میں جلدی نہ کریں۔ دوئم جب تک آپ کو یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ 90 روز میں ہر صورت الیکشن ہوں گے تب تک پنجاب اسمبلی نہ توڑیں اور سوئم آپ کے پاس کیا ضمانت ہے کہ نگران حکومت غیر جانبدار ہو گی۔
عمران خان نے ان تینوں باتوں پر عمل نہیں کیا اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ چودھری پرویز الہیٰ نے عمران خان کے ساتھ وفا کی۔ سب کا خیال تھا وہ پنجاب اسمبلی نہیں توڑیں گے مگر انہوں نے توڑ دی۔ اب تک وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے گھر پر پولیس نے حملہ کیا، گھر کا گیٹ توڑ دیا، عورتوں کو گرفتار کیا گیا۔ آج وہ روپوش ہیں مگر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر آج ان کی کہی ہوئی تمام باتیں ٹھیک ثابت ہو رہی ہیں۔
جو صحافی عمران خان سے حال ہی میں مل کر آ رہے ہیں ان کے مطابق ابھی بھی کپتان چٹان کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان ایک غیر معمولی دلیر انسان ہے۔ اس کو خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا، جھکایا نہیں جا سکتا مگر جو کچھ تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ ہو رہا ہے، خواتین کی تذلیل کی جا رہی ہے، آزاد کشمیر کی حکومت ختم کی جا چکی ہے، قائدین پتلی گلی سے کارکنوں کو لاوارث چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں، ان حالات میں لگتا ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ جیسا گھاگ سیاست دان ٹھیک کہتا تھا۔
حرف آخر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے جب عمران ریاض کی گمشدگی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے عمران ریاض کو صحافی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وفاقی وزیر صاحبہ ہم بھی آپ کو سیاست دان تسلیم نہیں کرتے کیونکہ سیاست دان تو الیکشن جیت کر اسمبلی میں آتے ہیں، آپ تو خیراتی سیٹ پر آئی ہیں۔ آپ کی تو اوقات ہی نہیں کہ آپ کو سیاست دانوں میں شمار کیا جائے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔