تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کی جھلکیاں اور مسلم لیگ نواز کے پہلے سو دنوں سے موازنہ

تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کی جھلکیاں اور مسلم لیگ نواز کے پہلے سو دنوں سے موازنہ
تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ گو سو دن کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے ناکافی ہوتے ہیں لیکن خود عمران خان اور تحریک انصاف نے سو دنوں کا ایجنڈا دیکر ہی یہ اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف کے اقتدار کے پہلے سو دنوں میں عوام کو واضح تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ عام انتخابات سے قبل مئی کے مہینے میں عمران خان نے تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں کے ایجنڈے کا اعلان کیا تھا اور پھر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عوام کو یقین دلایا تھا کہ تحریک انصاف سو دنوں میں انقلابی قسم کی تبدیلیاں لے کر آئے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن متنازعہ واقعات، یو ٹرن اور چند اچھے اقدامات پر مبنی ہیں۔ وزیراعظم کی کفایت شعاری کی مہم، بے گھر افراد کیلئے وقتی طور پر خیمے مہیا کرنا، سعودی عرب سے قرضے کا حصول، پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کا سرکاری اشتہارات پر اجارہ داری کا خاتمہ، بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار اور سکھ یاتریوں کیلئے پاکستانی سرحد کھولنے جیسے اچھے اقدامات سے لیکر پولیس افسران کے سیاسی دباؤ پر تبادلے اور پھر عدالت سے اس پر سرزنش، یو ٹرن، خود احتسابی سے فرار، اپنے دوستوں میں سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ، معاشی میدان میں ناکام حکمت عملی اور پچاس لاکھ گھروں جیسی غیر حقیقی مہمات کے اعلانات جیسے نامناسب اقدامات ان سو دنوں کا خاصہ ہیں۔

تحریک انصاف کے اچھے اور برے اقدامات اور اس کے پہلے سو دنوں کے کارکردگی کا پاکستان مسلم لیگ نواز کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے ساتھ موازنہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔

کفایت شعاری مہم

عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی سرکاری محکمہ جات میں کفایت شعاری کی مہم چلانے کا اعلان کیا تاکہ غیر ضروری اخراجات کو ختم کر کے عوام کا پیسہ بچایا جا سکے۔ اس مہم کا آغاز عمران خان نے خود اپنی ذات سے کیا اور وزیراعظم ہاؤس کے غیر ضروری ملازمین کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری گاڑیوں اور 8 بھینسوں کی نیلامی بھی کی۔ حکومتی ترجمان کے مطابق عمران خان کی اس کفایت شعاری مہم کے باعث وزیراعظم ہاؤس نے پہلے تین ماہ میں 147 ملین روپوں کی بچت کی۔ گو اپوزیشن اس اقدام کو بچگانہ اور سیاسی سٹنٹ قرار دیتی ہے لیکن بہرحال یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ عمران خان نے عوام کے پیسے کی بچت کیلئے ایک اچھی مہم کا آغاز کیا اور اس کا دائرہ کار اگر حقیقی معنوں میں تمام سرکاری دفاتر تک پھیل گیا تو عوام کے پیسے کی اچھی خاصی تعداد میں بچت ممکن ہو سکے گی۔

https://twitter.com/nayadaurpk/status/1068143344872812550

سعودی عرب سے قرضے کا حصول

پاکستان تحریک انصاف کو اقتصادی بحران ورثے میں ملا اور اسے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کیلئے فوراً پیسوں کی ضرورت تھی تاکہ بیلنس آف پیمنٹ کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اس ضمن میں عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس دورے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ سعودی حکومت نے پاکستان کو تین ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا اور اگلے تین برس تک تیل ادھار پر دینے کی حامی بھی بھری۔ گو سعودی عرب سے حاصل ہونے والا امدادی پیکج اقتصادی بحران کو ٹالنے کیلئے ناکافی تھا لیکن پھر بھی اسے تحریک انصاف کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ریاض سے اسلام آباد کے سردمہری کا شکار ہوتے تعلقات کو اس حکومت نے دوبارہ گرمجوشی کی بنیاد پر استوار کر لیا۔ نواز شریف دور میں سعودی عرب کی پاکستانی فوج کو یمن بھیجنے کی درخواست رد ہونے کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے درمیان تناؤ آ گیا تھا جو اب تحریک انصاف کی حکومت نے کم کیا ہے۔ البتہ اپوزیشن اور مبصرین بار بار یہی سوال اٹھا رہے ہیں کہ سعودی عرب سے قرضہ کن شرائط پر حاصل کیا گیا اور کہیں اس قرضے کے بدلے پاکستان یمن تنازعے میں فریق بنتے ہوئے سعودی عرب کا ساتھ تو نہیں دے گا؟



بھارت کے ساتھ امن پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی مثبت کاوش

انتخابات جیتنے کے بعد تحریک انصاف اور عمران خان نے بھارت کے بارے میں اپنا روایتی مؤقف تبدیل کیا اور مودی کا جو یار ہے غدار ہے کے نعرے سے نوے ڈگری کا موڑ لیتے ہوئے بھارت سے دوستانہ تعلقات کی کاوشوں کا آغاز کر دیا۔ عمران خان کی تقریب حلف برداری میں نوجوت سدھو کی شرکت، سکھ یاتریوں کیلئے کرتار پور کی سرحد کھولنے کا اقدام، تحریک انصاف کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپنی ہم منصب سشما سوراج سے امن کے مذاکرات کی بحالی کیلئے کاوشیں یہ تمام اقدامات ایک اچھی شروعات قرار دیے جا سکتے ییں۔ بھارت میں چونکہ عام انتخابات قریب ہیں اس لئے بھارتی حکومت فی الحال مذاکرات کا آغاز نہیں کرے گی لیکن مستقبل قریب میں یہ کاوشیں رنگ ضرور لائیں گی۔ بھارت کی مذاکرات میں عدم دلچسپی اور پاکستان کے اس ضمن میں بھیجے گئے پیغامات کو مسترد کرنے کو ناقدین اسے تحریک انصاف کی ناکامی قرار دیتے ہیں لیکن بہر حال تحریک انصاف کی کوششوں اور ان کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا۔



بے گھر افراد کیلئے عارضی چھتوں کی فراہمی

عمران خان نے حال ہی میں ایسے بےگھر افراد جو سخت سردی میں سڑکوں پر پڑے رہتے ہیں کیلئے فوری طور پر ٹینٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ مستقل شیلٹر ہومز کے قیام تک یہ افراد موسموں کی سختیوں سے بچتے ہوئے ان خیموں میں گزر بسر کر سکیں۔ یہ اقدام انتہائی قابل تحسین ہے کیونکہ ماضی میں کسی بھی حکومت نے اس پسے ہوئے طبقے کیلئے اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کی اجارہ داری کا خاتمہ

ماضی میں اخبارات اور ٹیلی وژن کو اشتہارات فراہم کرنے کی ذمہ داری پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (PID) کی تھی جو کہ وزارت انفارمیشن کے ماتحت ہے۔ گذشتہ حکومتیں اس ادارے کو استعمال کرتے ہوئے میرٹ پر درجہ بندیوں کے مطابق میڈیا کو اشتہارات دینے کے بجائے پی آئی ڈی کے ذریعے اپنے من پسند میڈیا گروپوں کو اشتہارات سے نوازتی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ عمل ختم کر کے ایک احسن فریضہ انجام دیا جس کے ذریعے میرٹ پر اشتہارات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی رقم جو بے جا اشتہارات ہر سرف ہوتی تھی اس کو بچایا جا سکے گا۔ البتہ اشتہارات کی تقسیم کیلئے تحریک انصاف نے تین ممبران پر مشتمل جو کمیٹی بنائی ہے اس پر تحفظات موجود ہیں اور صرف حکومتی ارکان کا اس کمیٹی میں شامل ہونا ان میڈیا گروپوں کے مالی استحصال کا باعث بن سکتا ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔



اقتصادی اور مالیاتی بحران کے تدارک کیلئے ٹھوس حکمت عملی کا فقدان

عمران خان ہمیشہ سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان کے معاشی بحرانوں کو حل کرنے کی کنجی ان کے پاس ہے لیکن اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں وہ معاشی بحران کے تدارک کیلئے کسی بھی قسم کی ٹھوس حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بروقت کسی بھی قسم کی معاشی حکمت عملی ترتیب نہ دینے کے باعث کرنسی کے بحران نے بھی جنم لیا اور پاکستانی روپے نے ہفتوں کے اندر ڈالر کے مقابلے میں بے پناہ قدر کھوئی۔ اس کے نتیجے میں سٹاک ایکسینج میں بھی بحران پیدا ہوا اور سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس پوائنٹس میں بہت زیادہ کمی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کر چکے تھے کہ وہ کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے یا دوست ملک سے قرضے کی بھیک نہیں لیں گے اس لئے انہیں کڑوے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضے کی درخواست کرنے میں کافی وقت لگا۔ وقت کے اس زیاں کے باعث ملک میں مزید اقتصادی بحران پیدا ہوا اور بالآخر تحریک انصاف کو آئی ایم ایف کے پاس امداد سے حصول کیلئے رجوع کرنا ہی پڑا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران تحریک انصاف کی معاشی معاملات کی ٹیم نے نہ تو کوئی مضبوط پیپر ورک کیا اور نہ ہی انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو سکی جس کے باعث ابھی تک آئی ایم ایف نے امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا ہے اور اس باعث دن بدن افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔



یو ٹرن

تحریک انصاف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے لیکر آج کے دن تک اس کے یو ٹرن لینے کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ اقتدار میں آتے ہی سوئس بنکوں سے فرضی لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر وطن واپس لانے کا معاملہ، امداد کا کشکول تھامنے سے انکار کرتے ہوئے کبھی بھی قرضے نہ لینے کا اعلان، عدالتی اور پولیس کے نظام میں اصلاحات، میرٹ پر افراد کی تعیناتی غرض ہر معاملے پر عمران خان اپنے وعدوں اور دعؤوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ عمران خان کا تازہ ترین بیان جس میں انہوں نے فرمایا کہ یو ٹرن لینا ایک اعلیٰ لیڈر کی نشانی ہوتی ہے دراصل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی اسرار و رموز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک عقلمند سیاسی رہنما ہمیشہ زیادہ میڈیا کوریج سے گریز کرتا ہے اور بیحد کم مواقع پر قوم سے خطاب یا صحافیوں سے گفتگو کرتا ہے تاکہ وہ کوئی ایسی بات نہ بول جائے جس پر وہ قائم نہ رہ سکے۔ اس کے برعکس عمران خان اور ان کی کابینہ میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کیلئے ہمہ وقت کوئی نہ کوئی حماقت پر مبنی ایسا بیان یا دعویٰ کر دیتے ہیں جسے حقیقت میں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سے نہ صرف ووٹر اور عوام متنفر ہوتے ہیں بلکہ عالمی برادری بھی اس بات کو منفی سمجھتی ہے کہ ایک ملک کا وزیراعظم خود یہ بول رہا ہے کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ اپنے وعدوں اور دعؤوں سے پیچھے ہٹنے کے باعث تحریک انصاف نے پہلے سو دنوں میں ان توقعات کا بھرم توڑ ڈالا ہے جو اس سے عوام نے وابستہ کی تھیں۔

پارلیمان کو نظر انداز کیا گیا

وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اپنے گذشتہ ہم منصبوں کے برعکس پارلیمنٹ کو وقعت اور اہمیت دیں گے اور اسے زیادہ سے زیادہ وقت دیں گے۔ انہوں نے ہر ہفتے خود کو پارلیمنٹ میں سوالوں کے جوابات دینے کیلئے حاضر کرنے کی بات بھی کی تھی۔ لیکن یہ وعدہ پہلے سو دنوں میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کنیٹی کی پوزیشن اور دیگر کئی سٹینڈنگ کمیٹیوں کی صدارت کی پوزیشنیں ابھی تک خالی ہیں کیونکہ تحریک انصاف ان پوزیشنوں پر اپوزیشن بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز کے ممبران کو پارلیمانی روایات کے مطابق تعینات نہیں کرنا چاہتی۔ تحریک انصاف کے وزرا کا پارلیمان میں غیر ذمہ دارانہ رویہ، فلور آف دی ہاؤس پر جھوٹے اعداد و شمار پیش کرنا اور اپنے مخالفین پر بنا کسی ثبوت کے بہتان تراشی بھی پارلیمان کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پہلے سو دنوں میں تحریک انصاف نے اسمبلی سے کسی قسم کا قانونی بل بھی پاس نہیں کروایا۔



پولیس پر سیاسی دباؤ اور مداخلت

تحریک انصاف اقتدار میں اس وعدے کے ساتھ آئی تھی کہ اقتدار حاصل کرتے ہی یہ پولیس کے محکمے کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر دے گی۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے پہلے سو دنوں میں ڈی پی او پاک پتن کا جبری تبادلہ، آئی جی اسلام آباد کا جبری برطرف کیے جانا اور پنجاب میں پولیس اصلاحات کمیشن کے سربراہ سابق آئی جی ناصر درانی کا سیاسی مداخلت کے باعث احتجاجاً استعفا دینا جیسے واقعات دیکھے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف پولیس میں اصلاحات لانے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور گذشتہ حکومتوں کی مانند اس ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔



غیر حقیقی وعدے اور سکیمیں

عام افراد کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان اور اس ضمن میں کسی بھی ٹھوس حقیقی حکمت عملی کی عدم موجودگی تحریک انصاف کیلئے سبکی کا باعث بنی۔ اس کے معاشی جادوگروں کی ٹیم بھی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ پچاس لاکھ گھر حقیقت میں کیسے تعمیر کیے جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں موجود بنکوں کے پاس اس قدر رقم موجود ہی نہیں جس سے وہ گھروں کی تعمیر کے اس منصوبے میں لگا سکیں۔ تحریک انصاف کے معاشی جادوگر یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے کہ آخر بنکوں کی موجودہ شرح سود جو کہ بہت زیادہ ہے اس کے ہوتے ہوئے کم آمدنی والے افراد ان گھروں کیلئے ماہانہ اقساط دینے کی سکت کہاں سے لائیں گے۔ اسی طرح ایک کروڑ نوکریاں بانٹنے کا وعدہ بھی ان سو دنوں میں کسی قسم کی توجہ سے محروم رہا بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر نے فرما دیا کہ انتخابات سے قبل کیے گئے وعدے لالی پاپ کی مانند ہوتے ہیں۔

اہم عہدوں پر دوستوں اور تعلق والے افراد کی تعیناتی

تحریک انصاف کی حکومت سے توقع تھی کہ یہ اہم عہدوں پر تعیناتی کرتے وقت میرٹ کا خیال رکھے گی لیکن اس کے برعکس عمران خان کے قریبی دوستوں اون چوہدری اور ذلفی بخاری کو حکومتی عہدوں سے نوازا گیا جبکہ جہانگیر ترین عدالت سے مالی معاملات میں خرد برد کے باعث نااہل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اہم حصہ ہیں اور پنجاب کے صوبے کو پس پشت رہ کر چلا رہے ہیں۔



خود احتسابی سے مکمل اجتناب

احتساب کا نعرہ پہلے سو دنوں میں محض تحریک انصاف کے مخالفین کیلئے سچ ثابت ہوا اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے افراد اس سے مبرا نظر آئے۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ اپوزیشن کو دینے کے بجائے خود ہی تحریک انصاف نے اپنے پاس رکھ لیا۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کی دبئی میں چھپائی گئی اربوں روپے مالیت کی پراپرٹی سامنے آئی لیکن عمران خان نے اس ضمن میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ بلکہ علیمہ خان نے ایمنسٹی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے جرمانے کی رقم ادا کی اور ان سے اثاثہ جات چھپانے یا ذرائع آمدنی کے حوالے سے کوئی سوالات نہیں پوچھے گئے۔ نیب میں علیم خان، ذلفی بخاری اور پرویز خٹک کے خلاف قائم کیسز کی سماعت اور تفتیش سست روی کا شکار رہی جبکہ عمران خان کی چیئرمین نیب سے ملاقات نے یہ تاثر دیا کہ نیب تحریک انصاف کے معاملے میں نرم گوشہ رکھتا ہے اور دانستہ تحریک انصاف کے ممبران کے خلاف مقدمات کو سست روی کا شکار بنا رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے پہلے سو دنوں کے ساتھ موازنہ

جہاں تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن ناتجربہ کاری اور اچھی ٹیم کی عدم موجودگی کے باعث کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں ہیں، وہیں پاکستان مسلم لیگ نواز کے 2013 میں حکومت میں آنے کے بعد کے پہلے سو دنوں کے دوران اسے ایک تجربہ کار ٹیم اور ماہرین میسر تھے جس کے باعث مسلم لیگ نواز کو پہلے سو دنوں میں امور حکومت چلانے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی۔ احسن اقبال، خواجہ آصف، خرم دستگیر خان، اسحاق ڈار، پرویز رشید یہ تمام وزرا اپنی اپنی متعلقہ وزارتیں چلانے کیلئے مطلوبہ تجربہ، قابلیت اور مہارت رکھتے تھے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ نواز کی حکومت ابتدا ہی سے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار دکھائی دیتی نظر آتی تھی۔ جب مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی تو اس وقت اس کے سامنے سب سے بڑے مسائل معیشت، بجلی کا بحران اور دہشتگردی تھے۔ نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر وقت ضائع کیے بنا آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کیلئے رابطہ کیا۔ مسلم لیگ نواز کے اس بروقت فیصلے کے باعث روپے کی قدر میں کمی کا بحران پیدا نہ ہو پایا اور سٹاک مارکیٹ بھی کریش نہ ہوئی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کر کے کرنسی کے بحران اور معاشی بحران میں مزید اضافہ کیا۔ پہلے سو دنوں میں ہی نواز شریف کے چین کے دورے کے باعث مسلم لیگ نواز چین سے کئی کاروباری اور انوسٹمنٹ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو گئی جبکہ عمران خان کے دورہ چین کے بعد اب تک کوئی قابل ذکر معاہدہ منظر عام پر نہیں آیا۔ نواز شریف نے منصب سنبھالتے ہی کراچی میں امن بحال کرنے کی کاوشوں کا آغاز کر دیا اور پہلے سو دنوں میں کراچی جا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سٹیک ہولڈرز سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ اس کے برعکس عمران خان جنہیں پختونخوا میں پشتون تحفظ مومنٹ کا سامنا ہے انہوں نے ابھی تک پشتون تحفظ مومنٹ کے مطالبات سننے یا صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے کسی قسم کے اقدامات کا اعلان تک نہیں کیا ہے۔ مسلم لیگ نواز نے گڈانی پاور پلانٹ کی ڈیل بھی پہلے سو دنوں میں پایہ تکمیل تک پہنچائی اور نیلم جہلم منصوبے پر رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز بھی کیا۔ چونکہ تحریک انصاف کو نواز لیگ کے برعکس بجلی کے بحران اور دہشتگردی کے مسائل درپیش نہ تھے اس لئے توقع تھی کہ تحریک انصاف پہلے سو دنوں میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھاتے ہوئے افراط زر اور مہنگائی میں کمی کی کاوشوں پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرتے ہوئے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کرے گی لیکن ایسا نہ ہو پایا۔



تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے حکومتی اداور کے پہلے سو دنوں کے اس مختصر سے تجزیے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسلم لیگ نواز اپنی تجربہ کار اور ماہر ٹیم کی بدولت اور بروقت فیصلے لینے کے باعث پہلے سو دنوں میں مسائل سے نمٹنے کیلئے ایک سمت متعین کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی جبکہ تحریک انصاف قابل اور تجربہ کار ٹیم نہ ہونے کے باعث اپنے پہلے سو دن کی حکومت میں ابھی تک کسی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے پاس ابھی پانچ سال موجود ہیں اور تحریک انصاف گورننس اور ترقی کے محاذوں پر مسلم لیگ نواز کی کارکردگی کا مقابلہ کر سکتی ہے اگر یہ اپنی ترجیحات اور حکمت عملی درست کرتے ہوئے ماہرین اور قابل افراد پر مشتمل ٹیم کے ذریعے مسائل کے حل کی کاوشوں میں وقت اور توانائیاں صرف کرے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔