‏کٹھ پتلیاں اور "افراد"

‏کٹھ پتلیاں اور
کہانی مزید کھل کر بیاں ہو چکی ہے۔ حکومت تھیلے سے باہر نکل کر یکدم اپنے اہداف کی طرف لپکی ہے۔ دو اہم محاذوں پر کامیابی ضروری ٹھہری۔ ایک مشرف یعنی سابقہ آرمی چیف کو غداری کے مقدمے سے بچانا اور دوسرا موجودہ کو سابقہ ہونے سے۔ ضروری اس لئے کہ کہانی ان اہداف کے بنا مکمل نہیں ہو سکتی۔

جس کہانی کی میں بات کر رہا ہوں یہ آج کی نہیں، عرصہ دراز سے پاکستان کو جہیز میں ملی ہوئی ہے۔ وہی کردار وہی اہداف، ہاں البتہ اداکار بدلتے رہتے ہیں۔ ہم زیادہ پیچھے نہیں بس 1990 تک ہی جاتے ہیں۔ جب بے نظیر کی حکومت تھی۔ آج عمران خان جو کردار نبھا رہے ہیں تب نواز شریف نبھا رہے تھے۔ کٹھ پتلیوں کی ڈور ہلانے والے " افراد" ہمیشہ کی طرح وہی تھے جن کا نام آج کل کھل کر لینے کا رواج پیدا ہوتا جا رہا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ بے نظیر تو حکومت بنا بیٹھیں مگر ان سے ایک غلطی ہو گئی، وہ 1989 میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو پاکستان لے آئیں۔ "افراد" کو یہ بات ناگوار گزری، اعتماد کی فضا بگڑی۔ اور اعتماد بگڑ جائے تو اچھے بھلے رشتے ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ سو ایسا ہی ہوا، بے نظیر کا جانا ٹھہر گیا۔ جس کے لئے ایک باضابطہ فضا بنائی گئی۔ وہی سب ہوا جسے ہوتے ہوئے حالیہ سالوں میں ہم نے دیکھا، کرپشن کے الزامات اور سب سے مؤثر سٹریٹجی جو کبھی رائیگاں نہیں جاتی، کردار کشی، خوب کی گئی۔ بہت سی پیچیدگیاں بھی پیش آئیں۔ بے نظیر کے ہاتھ دو حاضر سروس "افراد" کی "خفیہ سازش کی ٹیپ" لگ گئی، جس کے باعث کچھ رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، اور جب ایک بار "افراد" رسوا ہو جائیں تو وہ پلٹ کر دوگنی طاقت سے جھپٹنا خوب جانتے ہیں۔ ٹیپ زیادہ عرصہ کام نہ آئی، رسوائی نے جوابی وار کیا اور آخر رشتہ ٹوٹ گیا۔ حکومت ختم۔

بالاخر "افراد" کے منظور نظر نواز شریف اقتدار پر براجمان ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا کہ گڑبڑاہٹ پیدا ہوئی۔ حکم عدولیاں شروع ہوئیں تو کرم فرماؤں نے نظریں پھیر لیں اور چلتا کر دیا۔ مگر جن کے ذریعے انہیں چلتا کیا گیا، نواز شریف جاتے جاتے اسے بھی ساتھ لے گئے، جو کہ اسوقت کے صدر تھے۔ یعنی:

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے



1993 سے 1999 کی کہانی بھی اسی طرح 'ریپیٹ ٹیلی کاسٹ' ہوئی۔ نواز شریف 1997 میں ایک بار پھر "افراد" کی نظر کرم کا محور بنے اور "اُن" سے "پہلی سی محبت مانگنے" میں کامیاب ٹھہرے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس دوران نواز شریف پنجاب میں سیاسی لیڈر کے طور پر بڑا ووٹ بینک بنانے میں بھی کامیاب ہوچکے تھے۔ اب ووٹ بینک کی پاکستانی سیاسی ڈھانچے میں کیا اہمیت و حیثیت ہے یہ بحث پھر کبھی۔

خیر یہ سفر بھی مختصر رہا۔ اس دور حکومت میں نواز شریف نے دو بڑی غلطیاں کر دیں۔ ایک ایٹمی دھماکے تو دوسرا بھارتی وزیراعظم واجپائی کو لاہور لا کر مینار پاکستان کے نیچے کھڑا کرنا یعنی بے نظیر کی 1989 والی غلطی۔ پہلی غلطی بین الاقوامی "افراد" پر ناگوار گزری تو دوسری لوکل "افراد" پر۔ تو بس سزا کچھ ایسے ملی کہ چند ہی مہینوں کے وقفے کے بعد کارگل برپا ہوا۔ تضحیک آمیز انداز میں گرفتاری اور ساتھ ہی غداری کا مقدمہ۔ پھانسی کا پھندہ تیار ہی تھا کہ کچھ بیرونی دوست کام آئے اور نواز شریف پھانسی سے بال بال بچ کر لمبی چھٹی پر باہر چلے گئے۔ اور ایسے ایک اور جلاد 'تارا مسیح' بننے سے بچ گیا۔

1999 میں مشرف آگئے۔ جس کے بعد ملک بھر میں خوب گرج برس کے ساتھ رحمتوں کا نزول ہوا۔ بلوچستان میں ان رحمتوں کے سائے آج بھی پڑے نظر آتے ہیں۔ خیر، 2007 آیا تو بے نظیر ملک واپس آئیں، ان کے اقتدار کے معاملات بھی طے پا گئے۔ مگر پھر 2007 کے اختتام کو 4 روز باقی تھے کہ بے نظیر کو ختم کر دیا گیا۔ کس نے؟ کیوں؟ وجہ کیا بنی؟۔ آج تک جوابات کی تلاش جاری ہے۔ یعنی جتنے منہ اتنے جوابات والا حساب ہے۔

2008 میں زرداری حکومت شروع ہوئی تو کچھ وقت کے بعد وہ "افراد" سمیت عوام کو بھی ناگوار گزری۔ "افراد" کی ناگواری تو "توسیع" سے ٹال دی گئی مگر عوام کی ناگواری 2013 انتخابات میں نہ ٹل سکی۔ زرداری حکومت کو جانا پڑا۔ اور یوں بذریعہ ووٹ کارکردگی جانچنے کی پہلی مثال تاریخ میں رقم ہوئی۔



2013 میں نواز شریف ایک بار پھر اقتدار کے لئے کمر بستہ ہو چکے تھے۔ اپنے بھائی شہباز شریف کی بدولت پنجاب کا ووٹ دوبارہ جگانے میں کامیاب ہوئے اور حکومت سنبھال لی۔ اس بار "افراد" سے معاملات اس نکتے پر طے پائے کہ:

نہ جھٹکو زلف سے پانی

یہ موتی ٹوٹ جائیں گے

مگر حسینہ کو زلف جھٹکنے کی پرانی عادت تھی، جو آتے ہی جھٹک دی اور مشرف پر غداری کا مقدمہ کر دیا۔ اس سنگین غطی کی سزا ناقابل معافی ٹھہری۔ 1990 میں نواز شریف کا جو کردار تھا اسی طرح کے دو، دو کردار نواز شریف کے لئے میدان میں اتارے گئے۔ مگر ادھر بھی کچھ یوں ہوا کہ ایک خفیہ سازشی ٹیپ نواز شریف کے بھی ہاتھ لگ گئی، جیسے 1990 میں بے نظیر کے ہاتھ لگی تھی۔ جس کی وجہ سے 126 دن پر محیط "ٹائٹینک" ڈی چوک کی نالیوں میں ڈوب گیا۔ بنیادی معاملات طے پائے، مشرف باہر چلے گئے اور راوی نے چین ہی چین لکھنا شروع کر دیا۔ مگر حسینہ باز نہ آئی اور پھر سے گزشتہ دور کی طرح دو بڑی غلطیاں کر ڈالیں، پہلی سی پیک تو دوسری بھارتی وزیراعظم مودی کو لاہور لانا۔ گذشتہ دور ہی کی طرح پہلی والی غلطی بین الاقوامی "افراد" کو ناگوار گزری تو دوسری لوکل "افراد" پر بجلی کی طرح گری۔ بداعتمادی مزید گہری ہوئی اور رشتہ بگڑ کر طلاق تک جا پہنچا۔ غلطیان سنگین تھیں، سزا لازم قرار پائی۔

ایسے میں بین الاقوامی "افراد" سے پانامہ لیکس کی شکل میں آنے والی چِٹ٘ھی نے ہراول دستے کا کام کیا اور کرپشن کی لمبی داستانوں کا سلسلہ چل نکلا۔ نا ختم ہونے والے الزامات و مقدمات اور ساتھ وہی پرانی اور مؤثر ترین سٹریٹجی، کردار کشی، خوب ہوئی۔ آخر نواز شریف کو ایک بار پھر چلتا کر دیا گیا۔

بالآخر پرانے کردار کو نبھانے "افراد" کے منظور نظر نئے اداکار عمران خان اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ کردار وہی ہیں، صرف اداکار بدل گئے۔ اب جمے رہنے کے لئے "افراد" کی کرم فرمائی ہوتی رہنا ضروری ہے ورنہ جہاں کہیں حکم عدولی ہوئی یا نظر پھری، وہیں کرپشن اور کردار کشی کے پرانے ہتھیاروں کے ذریعے نئے پاکستان کی نیِا بھی پلک جھپکتے ڈبو دی جائے گی۔ ایسا ہونے سے بچنے کے لئے ضرورت اسی امر کی ہے کہ عمران خان دونوں اہداف کے حصول کے لئے "مشرف بہ اسلام" بھی رہیں اور "رشکِ قمر" بھی۔ کیونکہ

"افراد" کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر "فرد" ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

‏موصوف صحافی ہیں ، جمہوری اقدار اور گرم چائے پر یقین رکھتے ہیں۔