جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کی رہائشی کشف مبارک بتاتی ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا، بھائی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے 2016 میں ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیا، 2018 میں ڈگری مکمل ہو گئی، اسی دوران والدہ کی طبیعت ناساز ہوئی تو ان کی خدمت اور دیکھ بھال کی غرض سے وقت ملنا مشکل ہو گیا لیکن اس کے باوجود میں میڈیا انڈسٹری جوائن کرنے کی خواہش مند تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن ملتان اسٹیشن سے ایک پروگرام کی پیشکش بھی ہوئی لیکن نقاب کے بغیر پروگرام کرنے کی شرط پر میں نے انکار کر دیا۔
وہ سمجھتی ہیں کہ میڈیا میں عملی طور پر آنا ان کے لیے موزوں نہیں کیونکہ میڈیا کا ماحول خواتین کے لیے غیر محفوظ ہے۔ خود سے آفس جانا، فیلڈ رپورٹنگ کرنا اور وقت بے وقت اسائنمنٹ مکمل کرنا خواتین کے لیے مشکل ہے۔ جنوبی پنجاب میں روایات کی وجہ سے بھی خواتین کا فیلڈ میں کام کرنا کسی حد تک معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین جو میڈیا کو جوائن کرتی ہیں ان کے لیے گلیمر اور ماڈرن سٹائل اپنانا لازمی ہوتا ہے جو ہر کسی خاتون کے لیے ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں گھر پر رہ کر مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے کا سوچ رہی ہیں جو اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہو سکیں گے۔
جنوبی پنجاب کے اضلاع وہاڑی، خانیوال، لودھراں میں خواتین رپورٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ ایسے متعدد واقعات روزمرہ زندگی میں پیش آتے ہیں جہاں خاتون رپورٹر کی مدد سے بہتر رپورٹنگ کی جا سکتی ہے لیکن ان اضلاع میں خواتین رپورٹر کا صحافت کی جانب رجحان بالکل نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ صنفی تضاد ہے۔
اگر آبادی کی بات کریں تو 2023 کی مردم شماری کے مطابق ضلع وہاڑی کی آبادی 34 لاکھ 30 ہزار 421، ضلع خانیوال کی آبادی 33 لاکھ 64 ہزار 77، لودھراں کی 19 لاکھ 28 ہزار 299، رحیم یار خان کی 55 لاکھ 64 ہزار 703 جبکہ راجن پور کی آبادی 23 لاکھ 81 ہزار 49 ہے۔
ان علاقوں کی روایات اور رسم و رواج کے مطابق یہاں خواتین کا کام کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں خواتین کی کچھ تعداد نظر آتی ہے جیسے سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خواتین ٹیچرز تعینات ہوتی ہیں میڈیکل کے شعبہ میں ڈاکٹرز کے علاوہ نرسز اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف میں بھی خواتین کام کرتی ہیں لیکن صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اب بھی خواتین آنا پسند نہیں کرتیں یا انہیں بیش تر مسائل کی وجہ سے آنا مناسب نہیں لگتا۔
ہراسمنٹ اور سکیورٹی کے معاملات کی وجہ سے بھی خواتین اس شعبہ کا حصہ نہیں بنتیں کیونکہ سماجی تنظیم بیداری کی ضلعی کوارڈینیٹر یاسمین فاطمہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی علاقے میں خواتین رپورٹرز ہونا بہت ضروری ہے، خاص طور پر ان کیسز کے لیے جو براہ راست خواتین کے متعلق ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہراسمنٹ، جنسی ہراسگی جیسے کیسز کی رپورٹنگ خواتین بہتر انداز میں کر سکتی ہیں کیونکہ ایک عورت دوسری عورت کے جذبات کو بہتر سمجھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین اپنے مسائل بتانے کے لیے سامنے نہیں آنا چاہتیں اور نہ ہی وہ کسی مرد رپورٹر کو تفصیل بتا سکتی ہیں۔ ایسے میں ایک لیڈی رپورٹر کا ہونا بے حد ضروری ہے آگاہی کے لیے، ان کا سوشل تجربہ ہوتا ہے۔ بہت سے ایسے ایشوز ہیں جو عام طور پر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی بہتر رپورٹنگ ایک لیڈی رپورٹر ہی کر سکتی ہے۔ بعض اوقات خواتین کے مسائل کو مسائل سمجھا ہی نہیں جاتا، جیسے گھریلو تشدد اور اس طرح کے بہت سے مسائل۔ جہاں پر صنفی تضاد ہوتا ہے اس کا خاتمہ لیڈی رپورٹر ہی کر سکتی ہے میل ڈومیننٹ معاشرے میں۔
مردوں کا خواتین بارے رپورٹنگ کا انداز اور طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ جب کوئی جنسی زیادتی کا کیس آتا ہے تو لڑکی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ایک لڑکی کی عزت لٹ گئی، اس کے متعلق ساری تفصیل بتائی جاتی ہے جبکہ اکثر اوقات زیادتی کرنے والے کا نام تک سامنے نہیں آتا۔ ایک لیڈی رپورٹر اس زیادتی کرنے والے کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے اپنی رپورٹنگ کر سکتی ہے۔ خواتین امپاورمنٹ، فنی تعلیم میں خواتین کا رجحان، کھیل، خواتین ان کو بہتر نمایاں کر سکتی ہیں۔
جدید دور میں بھی ہم نہیں چاہتے کہ عورتیں مردوں سے آگے جائیں
ہمارے پدرشاہی نظام میں صنف کا کام متعین کر دیا گیا ہے۔ ٹیچنگ کے علاوہ خواتین کا دوسرے شعبوں میں جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا اور شعبہ صحافت ان میں سرفہرست ہے۔ ہمارے رسم و رواج اس سے منع کرتے ہیں۔
مواقع کی کمی بھی ہے۔ پروفیشنل مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کوئی ادارہ سپورٹ نہیں کرتا۔ دیگر شعبہ جات کی طرح مواقع نہیں۔ اس شعبہ کی تعلیم کے کم مواقع ہیں۔
کشف مبارک بتاتی ہیں کہ پاکستان مجموعی طور پر سیفٹی اور سکیورٹی کے حوالے سے صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں ان پسماندہ اضلاع کی خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے جہاں وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کا اثر ہو اور خواتین کے حقوق کے بارے میں زیادہ آگاہی موجود نہ ہو۔
سابق ایم پی اے فرح منظور رند کا کہنا ہے کہ صحافت پڑھنے والی لڑکیوں کی تعداد یہ شعبہ جوائن کرنے والی لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے چھوٹے اضلاع میں خواتین کے لیے مواقع کم ہیں۔ اگر ڈگری حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لیے ٹریننگ سنٹر بنائے جائیں جہاں انہیں عملی صحافت کی تربیت دی جائے تو انہیں بہتر مواقع مل سکتے ہیں لیکن یہاں سب سے بڑی رکاوٹ خواتین کے لیے اداروں کی جانب سے مواقع کی کمی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے چینلز اور اخبارات کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر ضلع سے مخصوص تعداد میں خواتین کو صحافتی ملازمت دیں گے۔
فری لانس رپورٹر صبا چوہدری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں خواتین رپورٹرز کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بہت سی خواتین ایک خاتون رپورٹر کے ساتھ سب شیئر کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہے جو بات وہ ایک مرد صحافی سے نہیں کر سکتی ہیں۔ یہاں تک میں نے بہت سے مردوں کے ساتھ بات کرتے بھی یہی دیکھا ہے کہ وہ ایک خاتون صحافی کو اپنا مسئلہ زیادہ اچھے طریقے سے بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح جینڈر وائلنس پر کسی متاثرہ خاتون سے بات کرنی پڑے تو وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ایک خاتون صحافی کو بتانا چاہے گی۔
ہم مردوں کے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں خواتین کے اکثر فیصلے بھی مرد ہی کرتے ہیں اور ہمیں ایسی فیلڈ کی طرف جانے کو زیادہ کہا جاتا ہے جہاں ہمارا سامنا مردوں سے کم ہو یا پدر شاہی معاشرے میں یہ سوچ ابھی تک ہے کہ صحافت صرف ایک مرد ہی کر سکتا ہے۔ یہ سوچ چھوٹے علاقوں میں ابھی بھی ہے کہ اگر آپ نے کوئی جاب کرنی ہے تو آپ کے لئے سب سے بہتر شعبہ ٹیچنگ ہے کیونکہ وہ آپ کے لئے آسان ہو گا اور اگر ایک خاتون رپورٹر بن بھی جاتی ہے تو اس کو کوئی بھی آسان سی بیٹ دی جاتی ہے اور کافی مسائل بھی پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہ سب وجوہات ہیں کہ خواتین ایسی فیلڈ میں کم آتی ہیں۔
وہاڑی میں واحد خاتون رپورٹر نوشین ملک کا کہنا ہے کہ شعبہ صحافت میں ایسے چھوٹے اضلاع میں کام کرنا کسی خاتون کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے اس قدر مشکلات ہیں کہ وہ چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
سب سے پہلے تو صحافت جیسے شعبہ میں آنے والی خاتون کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اسے بد چلن اور ایسے دیگر خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ دوران رپورٹنگ میل رپورٹر بلاوجہ خواتین سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور بہانے سے انہیں چھونے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک عورت کے لیے انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، دوران رپورٹنگ کسی تقریب میں میل صحافی آپس میں معنی خیز گفتگو کرتے اور قہقہے لگاتے ہیں لیکن فیلڈ میں کام کرنے والی خاتون ان باتوں کو بخوبی سمجھتے ہوئے بھی کچھ کہنے سے قاصر ہوتی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) ضلع خانیوال کے صدر طارق شہزاد بندیشہ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے چھوٹے اضلاع میں خواتین رپورٹرز کے کم ہونے کی سب سے اہم وجہ شعبہ صحافت میں مستقل روزگار کا نہ ہونا ہے۔ یہاں اخبارات اور چینل صحافیوں کو بطور اعزازی رپورٹر رکھتے ہیں جن کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی بلکہ متعدد ادارے سکیورٹی فیس کی مد میں لاکھوں روپے وصول کر لیتے ہیں۔ ایسے میں خواتین صحافت کو کیونکر جوائن کریں گی۔ ہمارے ہاں مرد بھی خواتین کو وہیں ملازمت یا کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں جہاں اچھی تنخواہ ہو۔ شعبہ صحافت میں چھوٹے شہروں میں ایسا کوئی نظام نہیں، اس لیے بھی خواتین اس شعبہ کا رخ نہیں کرتیں۔
چھوٹے علاقوں میں خواتین کو کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا اکثر سامنا رہتا ہے بلکہ متعدد بار خواتین کام کی جگہ پر جنسی زیادتی کا شکار بھی ہوئی ہیں۔
مقامی پریس کلبز سے لی گئی معلومات کے مطابق ضلع وہاڑی میں ایک لیڈی رپورٹر ہے، خانیوال میں 2، مظفر گڑھ میں 4 جبکہ ضلع راجن پور، رحیم یار خان اور لودھراں میں ایک بھی خاتون رپورٹر نہیں ہے۔
رحیم یار خان میں نوائے وقت کے رپورٹر وحید اسلم رشدی بتاتے ہیں کہ اکثر اخبارات اور چینلز نے سکیورٹی کے ساتھ ساتھ ماہانہ بیک اپ فیس بھی طے کی ہوئی ہے اور سالانہ بزنس کا بھی ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایک خاتون کا شعبہ صحافت میں آنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے اضلاع میں کبھی بھی کسی اخبار یا چینل کی جانب سے ایسا کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا جس سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ اس شعبہ کا حصہ بنیں۔ نہ ہی کسی ادارے کی جانب سے کسی لیڈی رپورٹر کو ہائر کرنے اور اس سے رپورٹنگ کروانے کی ڈیمانڈ موصول ہوئی ہے۔ اگر کسی ادارے کی جانب سے ڈیمانڈ پر لیڈی رپورٹر رکھی جائے تو یقیناً اس کی تنخواہ یا اعزازیہ بھی مخصوص کیا جائے گا۔ اس طرح خواتین کو شعبہ صحافت میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔
وہاڑی سے تعلق رکھنے والی خاتون اینکر سمیرا جو ان دنوں ٹیلن نیوز سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے اضلاع میں خواتین کے لیے شعبہ صحافت میں مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ضلع میں 5 یونیورسٹی کیمپس ہونے کے باوجود ایک بھی یونیورسٹی میں میڈیا سٹڈیز کی ڈگری کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود خواتین بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے میڈیا سٹڈیز کی ڈگری حاصل کر لیتی ہیں لیکن مواقع نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو بڑے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔
کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد وہاڑی کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سلیم فاروق شوکت کا کہنا ہے کہ 2 سال قبل انہوں نے کوشش کر کے وہاڑی کیمپس کے لیے میڈیا سٹڈیز کا پروگرام منظور کرایا اور اسے لانچ بھی کر دیا لیکن طلبہ و طالبات نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور ناکافی داخلوں کی وجہ سے اس کا آغاز نہ کیا جا سکا۔ اب مختلف طریقے سے اس پروگرام کی پرموشن کر رہے ہیں جیسے ہی بہتر ردعمل ملا اس کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا۔
یونیورسٹی ذرائع کے مطابق رواں سال بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں کل 31 سٹوڈنٹس نے داخلہ لیا جن میں 9 خواتین شامل ہیں جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس 18 ہیں جن میں 5 خواتین شامل ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ 11 سال پہلے انہوں نے بھی شوق کی وجہ سے میڈیا کی ڈگری حاصل کی اور اپنے کریئر کی خاطر لاہور روانہ ہوئیں جہاں محنت جاری رکھی اور کامیابی ملی۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد مین سٹریم چینل میں بطور اینکر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔