'پنشن اور مراعات بچانے کے لیے جسٹس نقوی مستعفی ہو جائیں گے'

صحافی نے بتایا کہ انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے خلاف ریفرنس پر قانونی لڑائی کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر تو وہ اپنے خلاف دائر شکایات کو جھوٹ پر مبنی ثابت کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس آپشن کو اختیار کرنے پر انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان کے خلاف دائر شکایات درست ثابت ہو جاتی ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کر دے گی۔

'پنشن اور مراعات بچانے کے لیے جسٹس نقوی مستعفی ہو جائیں گے'

سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف دائر بدعنوانی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق شکایات پر ایک سابق جج اور 2 قانونی ماہرین سے مشاورت مکمل کر لی ہے اور ماہرین کی جانب سے انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ ریفرنس پر قانونی لڑائی لڑنے کے بجائے وہ عہدے سے مستعفی ہو جائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات اگر درست ثابت ہو جاتی ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کر سکتی ہے۔ اس صورت میں وہ پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہو جائیں گے۔ قانونی ماہرین کے مشورے کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جسٹس نقوی پنشن اور دیگر مراعات بچانے کے لیے جلد استعفیٰ دے دیں گے۔ یہ کہنا ہے صحافی اسد علی طور کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد علی طور نے بتایا کہ سپریم کورٹ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بدعنوانی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق شکایات زیرسماعت ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی کو پہلا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تو انہوں نے اس کا جواب جمع کروانے کے بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان پر اعتراض اٹھائے تھے تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کے دوسرے اجلاس میں شکایت کنندہ کی جانب سے فراہم کیے گئے شواہد پر بحث کے بعد انہوں نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے تھے۔

صحافی نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے خلاف ریفرنس کو آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن اعتراضات کو بنیاد بنا کر انہوں نے کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، یہ اعتراضات انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں واپس لے لیے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تین جج صاحبان سماعت کے لیے بنچ تشکیل دینے والی کمیٹی میں بھی شامل ہیں۔ اب جبکہ ان ججز کو معلوم ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے ججز کے خلاف اپنے اعتراضات واپس لے لیے ہیں تو اس مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ صحافی کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس پر اب جو بھی کارروائی ہو گی سپریم جوڈیشل کونسل میں ہی ہو گی۔

اسد طور نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف دائر شکایات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے ایک مضبوط لیگل ٹیم کھڑی کی ہے۔ اس ٹیم میں مخدوم علی خان، علی ظفر اور خواجہ حارث جیسے قد آور وکلا شامل ہیں۔ ان وکلا کا شمار پاکستان کے نامور اور مہنگے ترین وکلا میں ہوتا ہے اور ان کی فیسیں کروڑوں میں ہوتی ہیں۔ اب جبکہ ان کے خلاف شکایات کی کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل ہی میں جاری رہے گی تو اس ضمن میں جسٹس مظاہر نقوی 3 قانونی شخصیات سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان تین شخصیات میں ایک ریٹائرڈ جج ہیں جبکہ دو دیگر قانونی دماغ ہیں۔ اسد طور نے بتایا کہ ان قانونی ماہرین سے جسٹس نقوی کی مشاورت مکمل ہو گئی ہے اور اس مشاورت میں جسٹس مظاہر نقوی کو دو آپشن دیے گئے ہیں۔

صحافی نے بتایا کہ انہیں پہلا آپشن یہ دیا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی اپنے خلاف ریفرنس پر قانونی لڑائی کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر تو وہ اپنے خلاف دائر شکایات کو جھوٹ پر مبنی ثابت کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس آپشن کو اختیار کرنے پر انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان ماہرین کے مطابق اگر جسٹس نقوی یہ قانونی لڑائی ہار جاتے ہیں اور ان کے خلاف دائر شکایات درست ثابت ہو جاتی ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کر دے گی۔ اس صورت میں جب ان کو ہٹایا جائے گا تو اس کے بعد انہیں پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہونا پڑے گا کیونکہ اب ان کی حیثیت ریٹائرڈ جج کی نہیں بلکہ برطرف جج کی ہو گی۔ کسی بھی سپریم کورٹ جج کا جو بھی ریٹائرمنٹ پیکج ہوتا ہے وہ انہیں نہیں ملے گا۔ اس میں محض 10 لاکھ سے زائد تو ان کی ماہانہ پنشن بنے گی جس سے انہیں ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے۔

اسد طور کے مطابق قانونی ماہرین نے انہیں دوسرا آپشن یہ دیا ہے کہ قانونی لڑائی لڑنے کے بجائے جسٹس مظاہر علی نقوی خود سے استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ اس صورت میں انہیں ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملے گی اور دیگر مراعات بھی حاصل ہوں گی۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کارروائی بھی یہیں ختم ہو جائے گی۔ اس سے انہیں یہ بھی فائدہ حاصل ہو گا کہ بعد میں یہ بیانیہ نہیں بنے گا کہ آپ ہٹائے گئے ہیں۔ آپ کی مراعات بھی جائیں گی اور الزامات بھی ثابت تصور کیے جائیں گے۔ اسد طور نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جسٹس مظاہر نقوی آنے والے دنوں میں استعفیٰ دے دیں گے۔