جب 1953 میں جولائیس اور ایتھل روزنبرگ کو امریکی حکومت نے سوویت جاسوس ہونے کے الزام میں سزائے موت دی تو فیض احمد فیض نے 'ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے' جیسی اعلیٰ نظم لکھی۔
فیض ایک عظیم اور بین الاقوامی شاعر تھے لہٰذا وہ انسانی زندگی کے المیوں کو شاعرانہ توجیہات سے بیان کر دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1971 کے سانحے سے متعلق انہوں نے زیادہ نہیں لکھا کہ گھر کی بات تھی اور ڈھاکہ سے واپسی پر مداراتوں سے مائل ہو کر اپنے مخصوص معصومانہ دلفریب انداز میں صرف اس شاعرانہ سوال تک محدود رہے کہ 'خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟'
فیض صاحب سے ایک دفعہ سوال کیا گیا؛ 'فلسطین آپ کے لیے کیا ہے؟' اس پر انہوں نے جواب دیا؛ 'ان تمام سالوں کے بعد جو میں نے فلسطینیوں کے ساتھ گزارے، میں خود ایک ان میں شامل ہو گیا ہوں'۔
ظاہر ہے یہ سوال انہی ماہ و سال کے دوران کیا گیا ہو گا جب فیض پاکستان سے جلاوطن ہو کر بیروت گئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان سے یہ سوال کیا جاتا تو وہ خود کو یا اپنے سے جڑے رشتوں کو دنیاوی محفلوں میں 'کینسل' کیے جانے کے موجودہ امکان یا لہر سے بچانے کے لیے ایسا نہ کہہ پاتے اور کوئی شعر عطا کرنے پر ہی اکتفا کر لیتے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آج جب صحافت زیادہ تر پلانٹڈ نیوز، 'خوشامد'، چاپلوسی، 'ڈر' اور سنسنی خیزی وغیرہ کا ایک بے ہنگم ملغوبہ بن چکی ہے تو نہ جانے یہ سوال ان سے کون کرتا، شاید الجزیرہ ٹی وی یا رضا رومی کے نیا دور والے!
گورنمنٹ کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کرنے والے فیض جب لوٹس، جو تین زبانوں میں شائع ہونے والا جریدہ تھا، کے ایڈیٹر فائز ہوئے تو اس زمانے میں ان کی یاسر عرفات اور فلسطینی شاعر محمود درویش کے ساتھ دوستی اور تصویر باوجود انٹرنیٹ نہ ہونے کے وائرل ہوئی تھی۔
ہم جیسے لوگوں کو پی ٹی وی سے تو صرف بعد از جمعہ فلسطین کی آزادی کے لیے دعاؤں کا پتا چلتا تھا اور کم کم ہی سہی، کچھ خبر کھڑکھڑ کرتے ریڈیو کے بی بی سی چینل سے مل جاتی تھی۔
1980 میں بیروت میں اسرائیلی بمباری سے متاثر ہونے والے فلسطینی بچے کے لیے لوری ہو یا 1982 میں شاطلہ اور صبرا کے مہاجر کیمپوں میں نہتے بے حال انسانوں کا قتل ہو، فیض کا قلم تاریخ کی ان تاریکیوں کو قلمبند کرتا رہا۔
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی رِیت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
فیض صاحب تمام عمر وطن بدر ہونے کے باوجود آخری ایام لاہور میں گزار سکے اور پنجابی دوستوں کی پرزور فرمائش، اصرار اور تقریباً مان بھری دھمکی نما گزارش پر کہ یہ شعیب ہاشمی تھے جو ان کے داماد بھی تھے، انہوں نے ان سے ان کی ماں بولی یعنی پنحابی میں شاعری لکھوا لی۔
سوچتی ہوں کہ آج فیض اپنی شاعری کو ایلیٹ سٹوڈنٹس، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی میں اس قدر مقبول دیکھ کر کس طرح ریسپونڈ کرتے؟ ری ایکٹ تو کبھی کرتے ہی نہیں تھے۔
آج فیض زندہ ہوتے تو نہ جانے ان کی متاعِ لوح قلم کا کیا حال ہوتا؟ نہ جانے وہ فلسطینیوں کے لیے کتنے نوحے اور اشعار لکھ دیتے۔ شاید حکومتوں کو بھی للکار دیتے۔ شاید ارون دھتی رائے کے ساتھ، ایلس کے ساتھ ہم نوا ہو کر سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کی توثیق سے جرمنی میں بھی مارکسزم کی تشریح کرتے۔ ہو سکتا ہے وہ لینن پرائز واپس کر دیتے۔ ہوسکتا ہے وہ ملالہ، آنگ سان سوچی اور دیگر نوبل انعام یافتگان سے بھی بات کرتے۔
لیکن یہ تو میری اپنی آرزوئیں ہیں اور ایک مقبول ترین، عظیم ترین شاعر سے نان پریکٹیکل توقعات ہیں۔
20 نومبر کو فیض صاحب کی 39 ویں برسی گزری ہے۔ عام لوگ مرتے ہیں، لیجینڈز امر ہو جاتے ہیں۔
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے
اس مشکل وقت میں فیض جو کلام دے گئے، آئیے اسی میں سکون ڈھونڈیں۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بُت، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ اِمروز میں شیرینی فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باری ایام نہیں
اُن کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رُخِ صبح کا یارا بھی نہیں
اُن کی راتوں میں کوئی شمع منّور کر دے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
اُن کی نظروں پہ کوئی راہ اُجاگر کر دے
جن کا دیں پیروی کِذب و ریا ہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جُرّاتِ تحقیق ملے
جِن کے سر مُنتظرِ تیغِ جفا ہیں اُن کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِنہاں جانِ تپاں ہے جس کو
آج اقرار کریں اور تپش مِٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے