فیض احمد فیض (1910-1984) عظیم انقلابی شاعر، استاد، مدیر، نقاد، انسانی حقوق کے کارکن، ٹریڈ یونینسٹ، صحافی اور مفکر 20 ویں صدی کی ان یادگار ہستیوں کا حصہ تھے، جن میں پابلو نیرودا، ناظم حکمت اور محمود درویش شامل تھے۔ ان سب نے افرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے بینر تلے کام کیا ایک ترقی پسند تنظیم جو نوآبادیاتی دور کے پسماندہ لوگوں کی آواز رہی ہے۔ فیض اس کے ممتاز میگزین لوٹس کے ایڈیٹر تھے۔
چونکہ فیض، ناظم، محمود اور نرودا نظریاتی طور پر بہت قریب تھے، اس لیے ان کے کاموں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے، جس نے انسانیت کے لیے امن اور انصاف کی جدوجہد کا عالمگیر پیغام پھیلایا۔
فیض پنجاب کےشہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، جو کہ برطانوی حکومت کے تحت ہندوستان کا حصہ تھا۔ ان کا تعلق ایک اچھے زمیندار خاندان سے تھا۔ فیض کے والد ایک نامور وکیل تھے، جنہیں ادب سے دلچسپی تھی، اور جن کے دوستوں میں پاکستان کے قومی شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (1873-1938) سمیت کئی نامور ادبی شخصیات شامل تھیں۔
فیض نے اپنی تعلیم سیالکوٹ کے مشن اسکولوں میں انگریزی زبان میں حاصل کی، لیکن انہوں نے اردو، فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی، 1932 میں انگریزی میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی میں کیا۔
رسمی مطالعہ کے علاوہ، فیض نے ادبی حلقوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جن میں قائم ادیبوں کے گھروں پر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ گریجویشن کے بعد، انہوں نے 1930 کی دہائی کے وسط سے امرتسر اور لاہور میں بطور استاد کام کیا۔
فیض کے کام نے ادب کی دنیا پر دیرپا نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی 1962 میں لینن امن انعام جیتنے والے پہلے ایشیائی شاعر بنے۔ آزادی کے بعد اور سرد جنگ کے دور میں، فیض نے اپنے ملک کے ساتھیوں سے کہا "چلے چلو کے وہ منزل ابھی نہیں آئی" ۔وجہ صاف ظاہر تھی کہ امیروں اور مقتدر طبقے، مفتی اور خاکی حکمرانوں نے، نوآبادیاتی آقاؤں کے بنائے ہوئے نظام اور اقتدار پر قبضہ کر کے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا، بدقسمتی سے آزادی کے 77 سال بعد بھی آج بھی یہی صورت حال برقرار ہے۔
فیض کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، مقبول کتاب، ولیج ڈائری آف اے ہیریٹک بینکر ، کے مصنف معین قاضی نے نوٹ کیا: "جب انہیں لینن امن انعام سے نوازا گیا تو فیض کی قبولیت تقریر، جو ان کے مجموعے دستِ تہِ سنگ کے مختصر دیباچے کے طور پر بھی شائع ہوئی، انسانی ادب کا ایک عظیم ورثہ ہے":
’’انسانی ذہانت، سائنس اور صنعت نے ہم میں سے ہر ایک کو ہر وہ چیز فراہم کرنا ممکن بنا دیا ہے جس کی ہمیں آرام دہ رہنے کی ضرورت ہے… تاہم، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب انسانی معاشرے کی بنیادیں لالچ، استحصال اور ملکیت پر نہیں بلکہ انصاف، مساوات، آزادی اور ہر کسی کی فلاح و بہبود پر استوار ہوں۔‘‘
1930 کی دہائی میں فیض نے سجاد ظہیر (1905-1973) کی قیادت میں بائیں بازو کی مشہور ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فیض نے دہلی میں ہندوستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں خدمات انجام دیں اور 1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی فیض نے فوج سے استعفیٰ دیا اور اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔اس کے بارے میں تفصیلی ذکر ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی کی کتاب (Love and Revolution, Faiz Ahmed Faiz: The Authorised Biography) میں موجود ہے۔
ایلس فیض (1914-2003)، جن سے انہوں نے 1941 میں شادی کی تھی، بعد میں یادداشتوں کی ایک کتاب اوور مائی شولڈر (1993) شائع کی۔ فیض انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بن گئے۔ انہوں نے اردو روزنامہ امروز کے منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا، اور ٹریڈ یونینوں کو منظم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
1951 میں، فیض اور متعدد فوجی افسران کو نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ حکومتی حکام نے الزام لگایا کہ فیض اور دیگر لوگ بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس نے موت کی سزا کے تحت چار سال جیل میں گزارے اور 1955 میں رہا ہوئے ۔
صحافتی زندگی کے علاوہ فیض نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے سیکرٹری بھی رہے ۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق کے فوجی اقتدار پر قبضے کے بعد فیض ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو گئے وہ جلاوطنی پر مجبور ہو گئے۔ 1979 سے 1982 تک جنگ زدہ لبنان میں جلاوطنی کے بعد فیض پاکستان واپس آئے اور 20 نومبر 1984 کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
فیض نے جلاوطنی کے دوران میگزین لوٹس کی ایڈیٹنگ کرتے ہوئے اپنے قریبی دوست پابلو نیرودا کی کئی نظموں کے انگریزی ترجمے شائع کیے تھے۔ فیض نے اپنے بہت سے اداریوں میں اپنے قریبی دوست نیرودا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں انسانیت کا شاعر، 'ہمارے وقت کی عظیم آواز'، 'عوام کا حقیقی نمائندہ' اور 'ہر دور کا شاعر' کہا ہے۔ یہ تمام القابات فیض پر بھی صادق آتے ہیں ۔
2011 میں لندن میں منعقدہ فیض کی صد سالہ تقریبات پر، نوآبادیاتی محکومیت سے آزادی کے لیے ان کی انتھک جدوجہد اور نوآبادیاتی دور کے بعد کے پسماندہ لوگوں کی آواز بننے اور ان کے لئے عملی جد و جہد کے لئے انھیں عالمی سطح پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔
فیض کی شاعری کے پہلے مجموعے نقش فریادی (1943)، دست صبا (1952) اور زندہ نامہ (1956) میں ان کی قید کا تجربہ شامل ہے۔ فیض دیواروں کے پیچھے، قید میں، اس سوچ میں تسلی پاتے ہوئے اپنی زندگی کو بیان کرتے ہیں کہ "حالانکہ ظالم حکم دے چُکے کہ ان کمروں میں جہاں عاشقوں کا ملنا مقدر ہو وہاں کی شمعیں بجھا دی جائیں / مگر وہ چاند کو گل کریں تو ہم مانے ..."
فیض کی شاعری نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی وراثت کے کنٹرول، استحصال اور عوام کے حقوق سے انکار کے خلاف مزاحمت کا ایک ہتھیار ہے۔ وہ سامراج مخالف جدوجہد میں ایک سرگرم کھلاڑی تھے اور محض ایک خیالی شاعر نہیں تھے، جو باڑ کے دوسری طرف بیٹھ کر دوسروں پر محض تنقید کرتے ہیں ۔ یہ ان کو بہت سے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں سے ممتاز بناتا ہے، جو " ادب برائے ادب " پر یقین رکھتے تھے اور اپنے وقت کے حکمرانوں کا یا تو خاموشی سے، یا بے عملی سے ،ساتھ دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم مفکر، پروفیسر ایڈورڈ سعید (1935-2003) نے اپنی زندگی کے دوران ہمیشہ فیض کی ہمت اور صداقت گوئی کی تعریف کی۔
فیض نے بڑے پیمانے پر لکھا ، شاعری اور نثر میں ان کی گراں قدر خدمت ہیں ۔ شیما مجید اور محمد رضا کاظمی نے اپنی مشترکہ کتاب ، ثقافت اور شناخت: فیض کی منتخب انگریزی تحریریں، میں ان کا قابل قدر کام پیش کیا ہے۔ فیض کی شاعری اپنے وطن اور دنیا میں بسنے والے بڑے پیمانے پر پسماندہ لوگوں ’زمین کے دکھی‘ ( Wretched of the Earth)، جسےفرانز فینن نے اپنی کتاب کے سرورق کے لئے ساتھ وضع کیا کے لیے ایک بہتر جگہ بنانے کے مرکزی موضوع سے جنم لیتی ہے ۔
فیض کے بارے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنے غالب انقلابی خیالات کے باوجود انہوں نے کبھی بھی نظریاتی افکار کو اپنی شاعری پر ناقص بیان بازی اور ارزاں نعرہ بازی کا سبب نہیں بننے دیا۔ ان کی فنی چکبدستی اور مہارت کےسب قائل ہیں ایک ایسی خوبی جس کا ان کے وقت کے بہت سے انقلابی شاعروں میں فقدان تھا۔
فیض کی شاعری ایک حقیقی جمہوری نظام کی تشکیل کے لیے امید اور عزم کے پیغام کی مظہر ہے، جس میں استحصالی قوتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ انہوں نے انسانوں کو امن و سکون سے رہتے ہوئے دیکھنے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ فیض واقعی امن، مساوات اور انصاف کا پیامبر ہیں ۔ ان کی شاعری عوام کی امنگوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے کام میں کلاسیکی صداقت اور جدید حساسیت دونوں موجود ہیں۔ فیض کو ان کے نقاد بھی، شاعرانہ اظہار کے عظیم ماہر اور ادب میں مزاحمت کی نئی روایت کے مستند معمار سمجھتے ہیں۔
فیض کی وراثت آفاقی اور لازوال ہے تقریباً چھ دہائیوں تک انہوں نے پسماندہ لوگوں کے دکھوں، بے دخلی اور جلاوطنی کی اذیت کو بے مثال انداز میں بیان کیا۔ اسماعیل کدارے 2009 کا ہسپانوی ادبی انعام یافتہ، جسے 20 ویں صدی کے سب سے بڑے ادیبوں اور دانشوروں میں شمار کیا جاتا ہے نے اپنی سرزمین (البانیہ) کے المیے کو اسی ماہرانہ زبان اور انداز میں بیان کیا، جو ایک مسلسل جنگ کا میدان ہے۔ درحقیقت یہ اکیلے البانیہ کی کہانی نہیں تھی۔ یہ لاکھوں دوسرے لوگوں کا بھی المیہ ہے دنیا بھر کے شورش زدہ ممالک میں رہنے والے جہاں جنگیں، خانہ جنگی، ریاستی جبر، بھوک، دہشت گردی اور عسکریت پسندی روز مرہ کی بقا کے مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔
غزہ میں بے گھر اور جلاوطن افراد کا جاری المیہ اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی حالت زار اس بات کی تلخ یاد دہانی ہے کہ انسانیت کو ظالموں اور استحصال کرنے والوں، جنگجوؤں اور مذہبی تعصبات سے نجات کے لیے ابھی ایک طویل جدوجہد کرنی ہے۔
آج فیض، محمود درویش، ناظم حکمت اور پابلو نیرودا جیسے عظیم شاعر زندہ نہیں ہیں، لیکن انہوں نے اپنے کام اور عمل میں جس جرأت کا مظاہرہ کیا ، وہ دنیا کے ان تمام معروف شاعروں، ادیبوں اور سماجی کارکنوں کے لیے ایک مستقل فیضان، حوصلے اور ہمت کی علامت ہے، جو مظلوموں، پرامن اور مظلوموں کے حق میں جدوجہد کر رہے ہیں۔
