میں ہرگز آزاد نہیں ہوں

میں ہرگز آزاد نہیں ہوں
ہم ایسے بھی نہیں کہ کسی فلسفی کی بات پر سر دھن سکتے کہ مغرب کی آزادی کی تحریکوں کی نسبت برصغیر میں چلنے والی مسلمانوں کے جداگانہ وطن کی تحریک شروع سے ہی اپنی ایک ہی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات کے اُتار چڑھاؤ کے سبب خطے میں مسلمان ہندوؤں سے ٹھیک ایک نسل پیچھے رہ چُکے تھے جس کا فائدہ مسلمان جاگیرداروں کو ہوا۔

علی گڑھ کالج میں شروع ہونے والی تحریک البتہ اپنے کچھ مقاصد کو لے کر بالکل ٹھیک ضرور تھی۔ شروع شروع میں مقصد تو یہ رہا کہ ہندوؤں کے مقابلے میں جو ایک نسل پیچھے رہ چُکے ہیں اس کا ڈیمیج کنٹرول کیا جا سکے اور اب انگریزوں سے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔ بدقسمتی کہیں یا اپنی سہولت کے مطابق کچھ بھی، ان مقاصد کی جگہ کچھ خوابوں اور تعبیروں نے بہت جلد ہی لے لی۔

آج ایک نیا تجربہ کر کے دیکھتے ہیں۔ ہم کسی بھی خطے میں آزادی کی خواہش  کو کوئی نام نہیں دیتے۔ اس سے منسلک  اچھے یا بُرے خیالات بھی اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ اب کچھ بہت ہی بنیادی باتوں کو موضوع کا حصہ بناتے ہیں۔ کیا آپ نے خود کو معاشی طور پر بھی کبھی آزاد محسوس کیا؟

اس خطے میں آزادیوں کے ساتھ مذہب اور لسانیت کا تعلق کافی مقبول ہے۔ یہ ایسے خیال نہیں ہیں کہ جن کو تاریخی طور پر رد کیا جائے کہ کبھی تھے ہی نہیں۔ لیکن ان تحریکوں کے شروع ہونے سے تکمیل تک ہمیں بہت کچھ کھونا بھی پڑا۔ جیسے کہ مذہبی جذباتیت سے اس خطے کے مسلمانوں کا حقوق کی جانب اصل شعور کا قتل عام ہوا۔ ایک وہ لمحہ اور ایک آج۔ تقسیمی لکیر کی دونوں جانب کی غُربت آج بھی فیض احمد فیض صاحب کی وہ صدائیں یاد کررہی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

بنگلہ دیش کے ہاشئے پر بھی یہی سوال اٹھا لیتے ہیں۔ صدیق سالک کی کتاب 'میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا'، حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ سمیت جتنی بھی سچائیاں ہیں ان کو شامل بحث کرتے ہوئے پاکستان عالمی طور پر بنگالیوں سے زیادتیوں کے ازالے پر ریاستی سطح پر معافی نامہ جاری کر دے جو کہ میرے خیال میں بالکل کرنی چاہیے۔ لیکن اس سوال کو میں کس چیز سے مٹاؤں کہ کیا بنگلہ دیشی عوام معاشی طور پر بھی بہت خوش نظر آتی ہے؟ اب کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہوگی کہ  ہماری آزادیوں میں معیشت کے سوال کے اہم نہ ہونے کا فائدہ اور نقصان کن دو طبقات سے منسلک ہیں۔ اس بات کے پیش نظر کیا اب بھی زبان، مذہب اور قومیت ہماری توجہ کا اتنا ہی مرکز ہونے چاہئیں جتنا کہ آج تک رہے ہیں۔ اگر ایک خاص عمرانی معاہدے کہ جس میں معیشت کی قدر سب سے اوپر اور باقی سب ثانوی ہوں تو بھی کوئی بُرا حل نہیں ہے۔

بلوچستان کا معاملہ اس سے الگ کب ہے؟ اسی کو ہی لے لیجیئے۔ ایک جانب ریاست ہے، دوسری جانب غریب بلوچ پر محکوم سردار۔ بیچ میں وہ عوام جو نسل در نسل غلام اور چکی کی طرح پِسنے کو پیدا ہوتے ہیں۔ صحافی بھی ایسی لڑائی میں اپنا خون کس کے ہاتھ میں تلاش کرے؟ دو متضاد باتوں میں ایسے ہونے والے قتل بہت آسانی کے ساتھ گول ہو جایا کرتے ہیں۔ کیونکہ آج تک ملک کے وزراء اعظم کے قتل کے معمے حل نہیں ہو سکے، ان صحافیوں کے لئے تحقیقات کس کتاب میں لکھا ہے کہ ان سے زیادہ ضروری ہیں۔

اب اس معاملے کو وسائل کی صحیح یا غلط تقسیم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدگی پسندی کو بھی عالمی طور پر ابھرنے والی ایک اکائی سمجھ لیا جائے۔ سوال پھر بھی نہ تنقیدی ہے اور نہ ہی حمایتی۔ سوال صرف ایک نقطہ نظر کی ترجمانی کالم کے آغاز سے ہی کرتا آ رہا ہے۔ وہ نقطہ نظر کہ جس کا مرکز وہ پسی ہوئی عوام ہے جس کو ہمیشہ آزادی کے لئے استعمال ہونا ہے لیکن سوال پھر بھی وہیں ہے۔ کیا آپ معاشی طور پر بھی آزاد ہیں؟

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔