یوں لگتا تھا جیسے وبا کے دوران ساری دنیا کے دکھ سانجھے ہو گئے اور ساری دنیا یکسوئی کے ساتھ وبا کے ساتھ مقابلے میں مصروف ہے۔ اور اب دنیا کی ترجیحات بدل گئی ہیں، حکمرانی کے انداز تبدیل ہو گئے ہیں۔ ملکی مفادات کے زاویوں کے رخ بنی نوع انسان کی جانب گھوم گئے ہیں۔ اب سامراجی قوتوں کو بھی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے بارے میں سو بار سوچنا پڑے گا۔ اب بم ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں بنانے کی بحائے ہستپال بنانے ہوں گے۔ مگر یہ سب خام خیالی ثابت ہوئی۔ جیسے ہی دنیا بھر میں وبا کا زور ٹوٹا اور کرونا وائرس کی ویکسین کی تکمیل انسانی آزمائش کے کامیاب تجربے کے بعد تکمیل کے ختمی مرحلے کی طرف گامزن ہوئی۔ وہی پرانی رنجشیں،نفرتیں ،سازشیں، سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
فطرت نے دنیا کو جو چونتی دی تھی ہم اسکو یکسر فراموش کر کے ایک بار اسی نفرت اور اندھے نصیب کی طرف لوٹ چکے۔ وہی اقتدار کی خواہشات کی تکمیل کے لیے محلاتی سازشوں کے جال دنیا کو اپنی مرضی کا پابند کرنے کی کوشش اور ذات پات مذہب زبان کے نام پر لسانی شازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ ملکی صورت حال سب کے سامنے ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے پہلے دو سالوں میں اب تک ڈلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ وزیراعظم عمران خان نے عوام کو جو امیدوں کے تاج محل بنا کر دکھائے تھے وہ دھڑام سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔
نہ تو وہ مہنگائی پر اب تک قابو پا سکے نہ ہی لوٹی ہوئی دولت واپس لا سکے۔ تاہم ایک کریڈٹ آن کو نہ دینا زیادتی ہو گی وبا کے دروان انکی حکمت عملی کامیاب رہی ،اس وقت پاکستان میں وبا کا زور ٹوٹ گیا ہے اور بہت ہی کم تاثر کے ساتھ موجود ہے پوری دنیا پاکستان حکومت کی پالیسی کی تعریف کر رہی ہے۔ عالمی میڈیا اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کی جانب حکومت پاکستان کے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت اور ایران دونوں وبا سے جان چھڑانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ حکومت کے خلاف متحدہ حزب اختلاف میدان میں آچکی ہے۔ اب تک گوجرانولہ،کراچی ،کوئٹہ میں جلسے ہو چکے ہیں۔
اب پشاور،ملتان،اور لاہور میں جلسے ہونے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت پی ڈی ایم کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ گزشتہ 40 سالوں سے اقتدار میں رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون ،عوامی نشنل پارٹی،جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان،اور پیپلز پارٹی جو اس وقت بھی سندھ کی حکمران جماعت ہے،جب چالیس سالوں سے یہ لوگ ملکی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو اب کونسی توپ چلا لیں گے۔ بحرحال چونکہ جمہوریت میں احتجاج کا حق حزب اختلاف کے پاس ہوتا ہے لہذا ان سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا مگر خدارا اپنے اقتدار کی خواہشات میں اداروں کو آلودہ نہ کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں بیت مقتدرہ کی چھتر چھایا کے بغیر اقتدار نہیں ملتا۔ مگر یہ کیا جب بیت مقتدرہ آپ کو تین بار وزیر اعظم بنا دے تب ٹھیک ہے اقتدار ملنے کے بعد مسلم لیگ ن کا طرز عمل کچھ اور اقتدار سے الگ ہونے کے بعد کچھ اور ہو جاتا ہے ابھی تو نون لیگ نے اس بات کا بھی جواب نہیں دیا کہ چند ماہ پہلے سپہ سالار کی ملازمت میں توسیع کے لیے کیوں ووٹ دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان 30 سال سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اسلام آباد میں سرکاری گھر تھا مشرف دور میں خبیر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومت انکے پاس تھی اور خود قاہد حزب اختلاف تھے تب ہی بیت مقتدرہ ٹھیک تھی۔ اب آپ کو لفٹ ملنی بند ہو گئی ہے تو یہ خراب ہو گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی ایک ٹکٹ میں دو مزے لیے رہی ہے سندھ حکومت بھی پاس ہے اور حزب اختلاف کے جلسوں میں تواتر سے شرکت کر رہی ہے۔ تاہم نواز شریف کی تقریر سے مناسب فاصلے رکھے ہوئے ہے اور اب تک حزب اختلاف کی جماعتوں میں سب سے زیادہ سنبھل کر کھیل رہی ہے ۔کیونکہ انکے پاس کھونے کے کچھ نہیں جبکہ پپلز پارٹی کے پاس ایک بڑے صوبے کی حکومت ہے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر ذاتی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر اندھے پن کا مظاہرہ نہ کریں کہ اپنی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف وہ زبان بولیں جو دنیا بھر میں آپکے حریف بولتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کراچی میں اردو کے خلاف خوب بولے ہیں وہ لسانی بنیادوں پر سب سے کم ظرف سیاسی حکمت عملی پر چل رہے ہیں اور وطن عزیز میں لسانی بنیادوں پر ایک نئی تفریق ڈال رہے ہیں۔
انکا طرز سیاست قابل مذمت ہے۔ اب وہ کوئٹہ میں پشتون ایشو پر افعانستان کے حوالے سے انکی تقریر بھی ایک اور لسانیات پھیلانے کی کوشش ہے۔ پچھلی حکومت میں انکے ایک بھائی وفاقی وزیر تھے اور دوسرے گورنر بلوچستان تھے تب سب ٹھیک تھا مگر اب الیکشن میں شکیت کے بعد وہ وطن عزیز کو لسانی بنیادوں پر خونی کھیل میں دھکیل رہے ہیں جو قابل مذمت ہے۔ یہ ٹھیک ہے وبا کے بعد بھی ہم نہیں بدلے وہی پرانے انداز لوٹ آئے ہیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔