پاکستانی میڈیا کی کشتی ایک ایسے طوفان کا شکار ہو چکی ہے جہاں اب صرف ہچکولے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ آخر یہ صورت حال کیوں پیش آئی؟ کیوں میڈیا کے تجربہ کار 'کھلاڑی' اس طوفان کی پیش گوئی کرنے سے قاصر رہے؟ ان سوالوں کا جواب بڑا سیدھا سا ہے اور وہ یہ کہ میڈیا نے اپنے لیے جس ماڈل کا انتخاب کیا وہ محض چند مفادات کے تحفظ کا نگران تھا، اسےعوام کے جمہوری حقوق کی فکر کم اور اپنے آقاؤں کی غلامی کرنا زیادہ عزیز رہا!
کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز میں ادارتی کنٹرول آج بھی شوگر ملز مالکان اور پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھ میں ہے، جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی سروکار نہیں؟ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عوام میں ان کی ساکھ کیا ہے، ان کے لیے اپنے کاروبار کا تحفظ کرنا سب سے اہم ہے۔ فیض آباد دھرنا اس کی ایک کلاسیک مثال ہے۔ کیسے ایک میڈیا ادارے نے پیمرا قوانین کی دھجیاں اڑائیں، قومی سلامتی کو داؤ پر لگایا۔ لاہور ہائیکورٹ نے نومبر 2017 میں اس چینل کا لائسنس منسوخ کیا، مگر پھر لائسنس کی بحالی کیلئے ایک طاقتور ادارے کی طرف سے اس وقت کے چیئرمین پیمرا پر دباؤ ڈالا گیا اور کہا گیا کہ یا تو اس مخصوص چینل کا لائسنس بحال کیا جائے یا پھر تمام نجی چینلز کی نشریات بند کر دی جائیں۔ پہلے تو سابق چیئرمین پیمرا نے کچھ مزاحمت کی مگر جب وفاقی حکومت کی جانب سے تحریری حکم ملا تو تمام ٹی وی چینلز کی نشریات بند کر دی گئیں۔
ذرا غور کریں اس طرح کے معاملات کیا پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں؟ کم از کم میرے جیسے صحافی نے نہ تو کبھی دیکھے نہ سنے۔ یہ میڈیا کی حالیہ تاریخ کا صرف ایک ایسا باب ہے جس میں صحافت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ میڈیا اپنا توازن کھو رہا ہے، ریت اس کے پاؤں کے تلے سے سرک رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ ادارہ بھی دیگر اداروں کی طرح اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں میڈیا سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عوامی حقوق، حکومتی احتساب اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرے گا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں میڈیا ماڈل اس طرح ترتیب دیا گیا ہے جہاں خبر کا معیار خبریت نہیں بلکہ کاروباری مفادات ہیں۔ میڈیا کارکنان تو محض یہاں ان خبروں کی بھٹی میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں!
پاکستان کے میڈیا اداروں کی اکثریت میں پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ جب کوئی معاملہ بحران کی صورت اختیار کرتا ہے تو میڈیا مالکان کے Troubleshooters میدان میں آتے ہیں، اپنی بقراطی سٹریٹجی تشکیل دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بحران حل ہو جاتا ہے۔ مالکان کو 'سب اچھا ہے' کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ مگر ان میڈیا مینجرز کی کم عقلی کی وجہ سے آج پاکستان میں میڈیا زبوں حالی کا شکار ہے۔ آج عوام کی نظروں میں میڈیا اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔
عدم اعتماد کا یہ حال ہے کہ وہ پرائم ٹائم ٹاک شوز جو کبھی ریٹنگز کے پہاڑ کھڑے کر دیتے تھے، اب غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں پرائم ٹائم ٹریفک اب ڈیجیٹل میڈیا کی طرف شفٹ ہو رہی ہے۔ سوائے ایک، دو چینلز کے دیگر چینلز کے پروگراموں کے ویوز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی دیکھے گا ہی نہیں تو پھر پروگرام کیسے بکے گا اور اگر پروگرام پیسے نہیں کمائے گا تو چینل کا مالک پیسے کہاں سے بنائے گا؟
یہ صورت حال کافی دلچسپ ہے اور اس صورت حال کا دوسرا اہم پہلو وہ اینکرز ہیں جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ پروگرام اینکرز نے ہمیشہ کوشش کی کہ ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان سے معاملات طے کرتے وقت پیسوں کو ترجیح دی جائے، صحافتی اصول تو بہت دور کی بات ہے۔ اینکرز کی پسند اور ناپسند سے بھی میڈیا جیسا ادارہ کمزور ہوا۔ ان کی بھاری بھرکم تنخواہوں نے ٹی وی چینلز کی مالی حیثیت کو کمزور کیا۔ آج میڈیا کو جس بحران کا سامنا ہے اسے کنٹرول کیا جا سکتا تھا اگر اینکرز کو کنٹرول کر لیا جاتا۔ ظاہر ہے یہ ناممکن تھا۔ اینکرز کی 50، 50 لاکھ تنخواہوں اور دیگر پرکشش مراعات نے میڈیا کی کمر توڑ ڈالی۔
جہاں ہم عوامی نمائندوں کی دہری شہریت سامنے آنے پر چیخ و پکار کرتے ہیں، آخر کیوں ٹی وی اینکرز کی دہری شہریت پر سوال نہیں اٹھاتے، جو 24 گھنٹے پاکستانی قوم کے حواس پر سوار رہتے ہیں؟ میڈیا اینکرز کی دہری شہریت پر پابندی ہونی چاہیے۔ رائے عامہ پر اثرانداز ہونا براہ راست قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے، اور پھر کیا دہری شہریت کے حامل فرد کو قومی سلامتی سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جس نے کسی دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہو؟ ہرگز نہیں!
میڈیا کو ایک مضبوط ادارے کے طور پر کھڑا ہونا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ میڈیا نے خود کرنا ہے۔ کاروبار کرنا کوئی جرم نہیں، پوری دنیا میں کاروباری افراد میڈیا ہاؤسز سے وابستہ ہیں مگر سوالات اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب مالکان ادارتی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ صحافت اور کاروبار میں فرق واضح ہونا ضروری ہے۔ یہاں Same page نہیں چل سکتا۔ عوام کو حقائق پہنچانا صحافت کا بنیادی اصول ہے جبکہ کاروبار کی بنیاد منافع ہے اور منافع اپنے لیے کسی اصول کو نہیں مانتا۔ تو کیا میڈیا اپنی کمزور پڑتی ساکھ کی بحالی کیلئے تیار ہے؟ موجودہ حالات میں تو یہ ہوتا نظر نہیں آتا!