صحافی اسد علی طور پر سنگین مقدمات کی سماعت کے دوران انکے وکیل کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد جواب دہندگان کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ کیس کی سماعت جج صادق خرم کے سنگل رکن بنچ نے کی۔ کاروائی کے دوران اسد طور کے وکلاء حیدر علی اور عمر گیلانی نے دلائل دئیے کہ اسد طور کے خلاف پولیس نے غیر قانونی ایف آئی آر درج کی ہے۔ پی ای سے اے کے سیکشن 29 اور 30 اور 2018کے قاعدہ نمبر 3 کے مطابق ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وکلاء نے کہا کہ شکایت کنددہ ایک پراکسی کا کردار ادا کر رہا ہے جو ان قوتوں کیلئے کام کر رہی ہیں جو آزادی صحافت اور آزاد عدلیہ برداشت نہیں کر سکتے۔
سماعت کے دوران وکلاء نے کہا کہ ملزم اسد طور کا ایک بھی مجرمانہ ریکارڈ درج نہیں بلکہ وہ ایک پیشہ ور صحافی ہیں جن پر اس قبل کوئی چھوٹامقدمہ بھی درج نہیں۔ ان کو صرف اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے عدالتی وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسی کیس میں انصاف اور سچائی پر مبنی رپورٹنگ کی۔
ابتدائی دلائل سننے کے بعد معزز جج نے کہا کہ یہ ایف آئی آر بغیر کسی دائرہ اختیار کے درج کی گئی ہے۔ تاہم اس معاملے کو طے کرنے کیلئے دوسری طرف کا موقف آنا بھی ضروری ہے لہذا رپورٹ جاری کرنے کیلئے نوٹسز جاری کر دئیے گئے ہیں۔ اس کیس کی اگلی سماعت دس اکتوبر کو کی جائیگی۔
یاد رہے کہ کچھ دن قبل چند صحافیوں پر اینٹی پاکستان پروپیگنڈا اور آرمی مخالف پوسٹیں کرنے پر انتہائی سنگین مقدمات درج کئے گئے تھے ان میں ابصار عالم اور بلال فارقی کے علاوہ صحافی اسد طور بھی شامل ہیں۔ تاہم اسد علی طور نے اس کیس کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔