فدائی ایک ہتھیار ہے یا انسان؟

آج کل موت کی ایک نئی قسم وارد ہوئی ہے؛ فدائی۔ امسال (جنوری تا مارچ) ریاست نے اتنے بلوچ جوان قتل نہیں کیے جتنے مجید بریگیڈ نے فدائی حملوں میں مروائے۔ مجید بریگیڈ، بی ایل اے (بشیر) کا ایک ونگ ہے جو مجید لانگو سے منسوب ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق مجید لانگو بلوچوں کا پہلا فدائی یا خودکش سرمچار تھا۔

فدائی ایک ہتھیار ہے یا انسان؟

میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جنوری 2023 سے اب تک کتنے بلوچ مرے ہوں گے؟ بلوچستان میں موت کی کئی اقسام ہیں، اسی لیے مرنے والوں کی پوری تعداد ایک ہی ادارے سے معلوم نہیں کی جا سکتی۔ ہر ایک نے اپنی ذمہ داری کے مطابق اعداد و شمار جمع کر رکھے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے ان لوگوں کا اندراج کیا ہے جو قتل ہوئے ہیں، زیادہ تر حکومت کے ہاتھوں۔ فلاحی اداروں نے کم و بیش ان لوگوں کا حساب کتاب رکھا ہے جو ان کی نگرانی میں رہے ہیں اور بیماریوں نے ان کی جان لی ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ اکاؤنٹس پر حادثوں میں ہلاک ہونے والوں کے نام اور تصویریں شائع ہوئیں۔ سرکاری گنتی کا اپنا ہی طریقہ ہے، شہید ہونے والے فوجی اور ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے علاوہ مرنے والے دیگر افراد کے نام اس وقت درج کیے گئے ہیں جب چندے اور امداد کی امید تھی۔ سرمچاروں نے قابض فوجیوں کے علاوہ گل زمین کے جوانوں کا حساب کتاب رکھا ہے، قتل ہونے والے دلالوں سمیت۔

یہ اعداد و شمار سامنے رکھو گے تو دیکھو گے کہ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں، سڑک حادثوں میں ہلاک ہو رہے ہیں، (نا) معلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، سرکار قتل کر رہی ہے، سرمچار مار رہے ہیں۔ گذشتہ سال 524 بلوچ قتل ہوئے ہیں (حقپان کی فہرست کے مطابق جبکہ یہ فہرست بلوچستان کے صرف 7 اضلاع کا احاطہ کرتی ہے)۔ ان میں سے 314 افراد انہی دو طرفہ (نا) معلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیے۔ ایف سی نے 55، بی ایل ایف نے 40، سی ٹی ڈی نے 34 جبکہ بی ایل اے نے 36 بلوچ قتل کیے۔

اعداد و شمار کے مطابق سرکار کے کھاتے میں 89 قتل درج ہوتے ہیں جبکہ بلوچ مسلح گروہوں نے 76 بلوچ موت کی نیند سلا دیے۔ دونوں کے درمیان بلوچ کشی کا سخت مقابلہ رہا۔

حکومت دشمن ہی ہے، بلوچستان کی معدنیات کیلئے کسی کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گی، خاص طور پر بلوچ کو۔ کسی کو پروا بھی نہیں، چارپائی سے لگے حیات شہسوار کو بھی قتل کر دے گی اور کھجور کے درخت کی صفائی کرنے والے حیات بلوچ کو بھی۔ یہ قابل برداشت نہیں لیکن حکومت سے کار خیر کی امید بھی تو نہیں۔ البتہ وہ جو خود کو بلوچ کا خیرخواہ اور سپاہ کہتے ہیں وہ اگر بلوچ کو بلا جھجک قتل کرتے ہیں تو دل سے آہ اٹھتی ہے۔ سرمچار بلوچوں کو قتل کرتے ہیں اور حکومت کی طرح کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ لواحقین فریاد کرتے ہیں، جواز اور ثبوت مانگتے ہیں لیکن وہ سرکار کی طرح خاموش رہتے ہیں۔ ان ہلاکتوں کا جواز صرف چند سطر کی ایک خبر بنتا ہے:

'وہ ایک دلال تھا اور قومی عدالت نے سزائے موت دی ہے'۔ عدالت کا کیا نظام ہے؟ اس کا مقدمہ وہاں کیسے پہنچا؟ جرم ثابت کیسے ہوا؟ سزا کا تعین کیسے ہوا؟ جرم ثابت کرنے اور سزا دینے والے کون ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔

آج کل موت کی ایک نئی قسم وارد ہوئی ہے؛ فدائی۔ امسال (جنوری تا مارچ) ریاست نے اتنے بلوچ جوان قتل نہیں کیے جتنے مجید بریگیڈ نے فدائی حملوں میں مروائے۔ مجید بریگیڈ، بی ایل اے (بشیر) کا ایک ونگ ہے جو مجید لانگو سے منسوب ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق مجید لانگو بلوچوں کا پہلا فدائی یا خودکش سرمچار تھا۔

مجید لانگو، 2 اگست 1974 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو کو قتل کرنے نکلا تھا لیکن اپنے بم کا خود ہی شکار ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو تاخیر سے پہنچتا ہے اور اس وقت تک بم پھٹ جاتا ہے۔ مجید کے پاس دستی بم تھا، ٹائم بم نہیں۔ شاید وہ پن کھینچ کر بم ہاتھ میں لیے بھٹو کے انتظار میں بیٹھا تھا، یا اس نے پن کھینچی ہی تھی کہ بھٹو کے اردگرد کوئی (کوئی بلوچ خان صاحب یا رہنما) آ گیا ہو گا اور اس کے باعث مجید نے بم پھینکنے سے گریز کیا اور بم پھٹ پڑا، لیکن یہ حملہ خودکش یا فدائی حملہ نہیں تھا۔ وہ حملہ فدائی یا خودکش کہلاتا ہے جب کوئی مرنے نکلتا ہے۔ اس حملے کا ہدف ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی اور طریقے سے مارا نہیں جا سکتا۔ حملہ آور ہدف کو موت کے گھاٹ اتار کر خود بھی ہلاک ہو جاتا ہے۔

جاری جنگ کا پہلا فدائی حملہ درویش بلوچ نے 2011 میں، کوئٹہ میں، شفیق مینگل پر کیا۔ شفیق آج تک زندہ ہے۔ ایک اور حملہ اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے نوشکی میں کیا۔ اس حملے کی ویڈیوز بھی ریلیز ہوئی ہیں۔ ریحان جس گاڑی پر سوار ہے، اسے ایک بس سے ٹکراتا ہے۔ بس میں چینی اور پاکستانی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک حملہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے سامنے کیا جاتا ہے۔ اس حملے میں شریک سب ہی سرمچار سٹاک ایکسچینج کے بیرونی دروازے پر مارے جاتے ہیں۔ ایک بھی حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوا۔ شاری بلوچ کو ایک اور حملے کیلئے بھیجا جاتا ہے جس سے کراچی یونیورسٹی کے سامنے چینی شہریوں کی ایک وین نشانہ بنتی ہے۔ بس میں ایسا کوئی چینی افسر سوار نہیں تھا کہ جس کیلئے شاری جیسی فرد کی قربانی دی جاتی۔ تربت میں فوجی پک اپ کے قریب سمیعہ بلوچ کا دھماکہ کیا گیا۔ بعض اوقات فوجی کیمپوں پر فدائی حملہ کیا جاتا ہے جبکہ وہاں صرف سپاہی موجود ہوتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مچھ کا حملہ ایک تازہ واقعہ ہے جہاں سرمچاروں نے مچھ شہر کو ایک دو روز قبضے میں رکھا۔ مسجدوں سے اعلان کیے گئے کہ کوئی اپنے گھر سے نہ نکلے، شہر ہمارے کنٹرول میں ہے۔ دو دن بعد دعویٰ کیا گیا کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ شہر ہم نے اب چھوڑ دیا ہے۔ درجن بھر بلوچ یہاں قربان کیے گئے۔ شہروں کو کنٹرول کرنا روایتی انقلابی طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق باغی کسی شہر پر قبضہ کرتے ہیں، اپنا نظام لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام جان لیں وہ ان کیلئے کیسی شفاف، منصفانہ زندگی کے خواہ ہیں، لیکن مچھ میں کیا کیا گیا؟ شہر میں اپنا نظام متعارف کیا گیا؟ بلوچستان کا جھنڈا لہرا کر سرکاری ادارے، اسپتال و مقامات قبضہ کر کے چلائے گئے؟ حتی کہ مچھ جیل ہی، جہاں ان کے مطابق ناجائز عدالتی نظام کے باعث سینکڑوں لوگ قید ہیں، وہ چھڑا لیے گئے؟ نہیں۔ بس شہر پر دو دن حکومت کی۔ مقصد صرف یہی تھا، یا کچھ اور، اب تک معلوم نہیں ہوا کیونکہ سرمچار کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔

اور یہ فدائی حملے زیادہ تر اس وقت کیے گئے ہیں جب بلوچستان میں حکومت کے خلاف عوامی مزاحمت سامنے آئی اور منظم ہو رہی تھی، کوئی سیاسی عمل جاری تھا، میڈیا پر بلوچوں کے حق میں کچھ نہ کچھ بولا جا رہا تھا۔

برمش کے سانحہ پر پورا بلوچستان اور جہاں کہیں بلوچ آباد ہیں، مکران سے ڈی جی خان تک، ریاست اور ریاستی نظام کے خلاف جاگ اٹھے تھے، کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملے نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اسلام آباد دھرنے سے بلوچوں کی واپسی پر کوئٹہ و بلوچستان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ حکومت نے انہیں روکنے کیلئے اپنا سارا زور لگایا، پھر بھی ہزاروں بلوچ کوئٹہ میں جمع ہوئے، جلسہ ہوا۔ اور مچھ میں حملہ ہوا، جس نے یہ مزاحمت بھی سلا دی۔ جان بوجھ کر، سازش کے تحت سیاسی عمل روکا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے؟ بلوچ عوام کی مدد سے یا دنیا کی؟ اگر عوام کی مدد سے، تو پھر عوام سے یہ لاپروائی کیسی؟ مقصد عوام کی زندگی کو بہتر بنانا ہے یا ہر حالت میں، بہرصورت لوگوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھانے کیلئے کوئی راستہ تلاش کرنا ہے؟ عوام کو متحد کرنا ہے یا انہیں مارنا اور خوفزدہ کرنا ہے؟

جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے؟ دنیا کی مدد سے؟ تو پھر سارے آزادی پسند باہر بیٹھے ہیں، لیکن کوئی سفارتی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ بیرون ملک رہنے والے رہنما جب تک بلوچستان میں تھے، کہتے رہے کہ ہم مہذب دنیا کے فطری اتحادی ہیں اور ہم دنیا کی مدد سے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ اب جبکہ بیرون ملک رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب نوجوانوں کو لعن طعن کرنے بیٹھے ہیں تاکہ انہیں بھرتی کر کے فدائی بنانے کیلئے بھیجا جائے۔

سماج پر فدائی کے اثرات

بلوچستان کے ماحول نے الگ ہی رنگ اپنا لیا ہے؛ حکومت نے لوگوں کی زندگی اس حد تک تنگ کر دی ہے کہ بلوچ جہنم میں پہنچ گئے ہیں۔ لوگوں کو، حکومت جانتے بوجھتے، موت کی جانب دھکیل رہی ہے۔ ڈرگ مافیا، سیاسی مافیا کا گٹھ جوڑ قائم کر دیا ہے، سماج کی شکل ہی بدل ڈالی ہے۔ دو وقت کی روٹی کیلئے ہزار بار چاپلوسی کرنا پڑتی ہے۔ دوسری طرف بلوچ آزادی پسندوں کی بھرتی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے (خصوصاً 12 سے 35 سالہ نوجوانوں کے درمیان)۔ تعلیمی اداروں، بازاروں، شعر و شاعری کی محفلوں کے ذریعے، گیت و سنگیت کی راہوں پر نوجوانوں سے راہ و رسم بڑھائی جا رہی ہے، بات چیت کی جا رہی ہے، طعنے دیے جا رہے ہیں اور پہاڑوں پر لے جائے جا رہے ہیں، فدائی بنا رہے ہیں۔ ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ موت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

نوجوان گوہر بے بہا ہوتے ہیں لیکن نوجوانی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ نوجوان اپنے آپ، خاندان اور زندگی سے ماورا کسی اور خیال کے مالک ہوتے ہیں، لیکن وہ بچے ہیں۔ نوجوان ہیں۔ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ بلوچستان کے موجودہ حالات کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کا دل جلتا ہے۔ انہیں مروانے کے بجائے، ان کی بے چینی ختم اور ان کی تربیت کرنا کہ کل بلوچستان کیلئے کچھ کر پائیں، بہتر ہے۔ یہ بچے والدین نے ہزارہا مشکلوں سے پالے ہیں۔ وہ بہنوں کیلئے جینے کا حوصلہ ہیں۔ ان کو مروانا نہیں بلکہ ان کی زندگی، ان کی اچھی ذہنی صحت تمہارا ضروری مقصد ہوتا۔ اور وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائیں، پھر آپ نہ لاشیں اٹھانے جائیں، نہ تجہیز و تدفین پر، نہ بعد میں آنے والی مشکلات میں شریک ہوں۔

'بھائی فدا بن چکا'۔ بعد میں بہنوں کو طعنے دے کر بھرتی کرتے ہو کہ تمہارا بھائی قوم کیلئے شہید ہو گیا اور تم قوم کیلئے کچھ نہیں کر رہی ہو، انہیں بھی بھائی کی طرح لیتے جاؤ گے۔ قوم کیلئے، مرنے کے بجائے، زندہ نہیں رہا جا سکتا؟

پہلے والدین پریشان رہتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کو کہیں پڑھنے کیلئے بھیجتے ہیں، حکومت انہیں اٹھا کر غائب کر دیتی ہے۔ آج کل والدین کی پریشانی بڑھ گئی ہے کہ حکومت اٹھا لے پھر بھی زندہ رہنے کی امید رہتی ہے لیکن بلوچوں کے ہاتھ لگ جائے، تو فدائی بن جائے گا۔ تم ان والدین کا درد، ان معصوم نوجوانوں کی زندگیاں کیسے نظرانداز کر سکتے ہو؟ اور وہ بھی بلوچستان اور بلوچ عوام کے نام پر؟

یہ فدائی برانڈ اور موت کی یہ مارکیٹنگ سماج سے برداشت کو ختم کر رہی ہے۔ نوجوانوں کے سامنے ہر مسئلے کا واحد علاج موت ہے۔ خودکشیاں بڑھ گئی ہیں۔ ملا زور پکڑ رہے ہیں۔ ان بھرتیوں کے باعث شہر باشعور لوگوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ شہروں کے سب ہی حساس نوجوانوں کو اگر پہاڑوں پر لے جاؤ گے، شہروں میں سرکار کی رضا پر چلنے والے ہی باقی رہ جائیں گے، شہر بتدریج سرکار کی حمایت کے مراکز بن جائیں گے۔ شہری سیاست ملک شاہ جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں جا رہی ہے۔ پورا سماج بدلتا جا رہا ہے۔ نیا ماحول سر ابھار رہا ہے، ایسا ماحول جس میں تم نظر نہیں آتے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فدائی ایک ہتھیار ہے جیسے کہ کلاشنکوف ہے، راکٹ ہے یا گرینیڈ ہے۔ یہ طرز فکر خودکش حملوں سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ جس رہنما کیلئے انقلابی کارکن ایک شے (ایک ہتھیار) ہے، اس کیلئے کسی دن جنگ پکنک ہی نہ بن جائے۔ انقلابی کارکن کی اہمیت کو ایک ہتھیار یا کسی شے جتنی سمجھنا جنگی کاروبار کے مطابق شاید ٹھیک ہو لیکن یہ انقلابی فکر نہیں ہو سکتی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں فدائی ایک تکنیک ہے۔ یہ بات وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کیلئے یہ غضب ناک آگ کوئی فلم ہے، کوئی ڈرامہ، کوئی نظارہ ہے۔ فدائی ایک انسان ہے، ایک انقلابی ہے جسے زندگی کی بدصورتیوں سے نفرت ہے۔ وہ نہیں جان پا رہا کہ کیا کیا جائے۔ وہ بے بس ہے، اس لیے کہ تم لوگوں نے اس پر دوسرے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔

فدائی حملوں کے جواز کیلئے ہمیشہ طالبان کی مثال دی جاتی ہے کہ طالبان نے اسی نوعیت کے حملوں سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت، امریکہ کو پچھاڑ دیا ہے اور اپنا ملک چھڑا لیا۔ طالبان ملا ہیں۔ کوئی ملا خودکش حملہ کرتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ اس کی منزل بہشت ہے، بعد از موت، اس کی منزل دوسری دنیا ہوتی ہے۔ انقلابی اس لیے نہیں لڑتا کہ میں مارا جاؤں اور دوسری دنیا میں آزاد بلوچستان میں داخل ہو پاؤں۔

لیکن طالبان جیسی طاقت بھی سفارتی عمل میں شریک رہی ہے۔ بعد ازاں مذاکرات کی میز تک سنبھالی ہے۔ آپ سیاسی و سفارتی میدان میں نظر نہیں آتے۔ لڑائی آپ لڑ رہے ہو، مذاکرات کررہے ہیں مالک و اختر۔ لڑ رہے ہیں آپ، سماج کا مالک بن گیا ملک شاہ۔ حکومت سارے کریمنلز کو اس لیے اکٹھا کر پا رہی ہے کیونکہ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں، کسی مقام پر، تم حکومت پر کسی اور فریق کی موجودگی میں اُنگلی نہیں اُٹها سکتے۔

آپ سیاست میں، سفارت کاری میں، یکجہتی، تعلیم و تربیت کہیں کسی میدان میں دکھائی نہیں دیتے۔ موت ہی کی قیمت پر بلوچستان کیسے آزاد ہو گا؟ اگر بلوچستان کے سب ہی بلوچ فدائی حملے کریں، بلوچستان آزاد و خودمختار قومی فلاحی ریاست کا درجہ حاصل کر لے گا؟ خود کو اگر مروانے کا ہی راستہ باقی بچا ہے پھر تو سب سے پہلے وہ (موجودہ اور سابق) رہنما فدائی حملے کریں جو اب کسی کام کے نہیں رہے ہیں۔ اپنا وقت گزار چکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ نوجوان کہ کسی نے کیمسٹری میں بی ایس سی کی ہے، کسی نے فزکس میں، کسی نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی تعلیم لی ہے، کوئی آئی ٹی میں تجربہ رکھتا ہے، یہ نوجوان تحریک کو ان رہنماؤں سے بہتر آگے بڑھا سکتے ہیں جن کی پڑھی ہوئی تازہ ترین کتاب ماؤ کے منتخب مضامین ہے جو انہوں نے سالوں پہلے پڑھی تھی۔

*

تاج بلوچ کا یہ مضمون 'بلوچستان ٹائمز' میں 27 اپریل کو بلوچی زبان میں شائع ہوا جسے رزاق سربازی نے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔

تاج بلوچ بلوچی زبان کے ماہر لسانیات، شاعر، افسانہ نگار اور مصنف ہیں۔ علمی مشاغل کے علاوہ بلوچستان کی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے کوآرڈی نیٹر ہیں۔